فلسفہ الہیات سے متعلق ماڈرن سوالات

سوال:   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛جس طرح قرآن مجید میں رسولوں کے معجزات کو بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح ہم ایک لفظ کرامت بھی سنتے آرہے ہیں کہ یہ فلاں ولی اللہ کی کرامت ہے۔ سوال یہ ہے کہ معجزہ کیا چیز ہے؟ کیا معجزہ اور کرامت ایک ہی چیز ہے؟ مزید یہ کہ جس طرح ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں شخص رسول اللہ ہے اور فلاں شخص مسلمان ہے اور فلاں ہندو ہے۔ کیا ولی اللہ کی شناخت بھی اسی طرح ہوتی ہے؟

ڈاکٹر رفعت نواب، فیصل آباد

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ رسولوں کا معجزہ تو اللہ تعالی کا عمل تھا۔ اللہ تعالی چاہے تو جب چاہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔ رسولوں کے معجزے کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ اللہ تعالی کا پیغام اس طرح پہنچا دیا جائے کہ ہر انسان پر  حقیقت مکمل طور پر واضح ہوجائے۔ جیسا کہ موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزے سے جادوگروں کو کنفرم ہو گیا تھا کہ یہ جادو نہیں ہے۔ اس لیے وہ خود  ہی ایمان لے آئے تھے اور فرعون نے انہیں جاں بحق کر دیا۔ اس کے لیے آپ سورۃ القصص میں پڑھ سکتے ہیں۔ 

رہی کرامت تو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ عام انسانوں کو جب اصل حقیقت کی وجہ سامنے نہیں آتی تو وہ اسے کرامت کہہ دیتے ہیں۔ اگر  کبھی کوئی صاحب کرامت کا دعوی کریں تو انہیں آپ فرمائیں کہ آپ ابھی کر کے دکھا دیں۔ پھر آپ خود ان کی انفارمیشن کو لیبارٹری میں لے جا کر چیک کر لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس میں کوئی کرامت والی چیز نہیں ہے۔ اصل میں  لفظ کرامت کی ایجاد یہاں سے ہوئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بتا دیا کہ نبوت ختم ہو گئی ہے اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے مفاد پرست حضرات نے یہی سوچا کہ اگرہم معجزہ کہیں گے تو لوگ ہمیں مار دیں گے۔ اس لیے انہوں نے غیر نبی کے طور پر کرامت کا لفظ ایجاد کر لیا ہے۔ 

آج کل آپ کمپیوٹر کے ماہر ہیں، تو آپ کسی پرانے بزرگ سے ملیں اور انہیں کمپیوٹر میں کتابیں اور سارے عمل کر کے دکھائیں تو وہ آپ سے متاثر ہو جائیں گے اور  وہ اسےآپ کی کرامت سمجھیں گے۔ مجھے بھی ایک بزرگ نے ایک کتاب کا پوچھا جو انہیں کہیں نہیں مل رہی تھی۔

میں نے گوگل میں  وہ کتاب  ڈھونڈ کر سامنے دکھا دی۔ وہ بزرگ بڑے متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ بھئی یہ تو بڑی کرامت ہے۔ میں نے مزاح میں عرض کیا کہ یہ حضرت پیر گوگل شاہ صاحب کی کرامت ہے۔  اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ٹیکنالوجی ہے۔

پرانے زمانے میں لوگ اسی طرح کی کرامتیں دکھاتے تھے جس کی سائنسی طور پر کوئی اورحقیقت ہوتی تھی۔  مثلاً کئی مذہبی لیڈرز افریقہ کے جنگلی قبائل میں جا کر اپنی میڈیسن سے ان کا علاج کر دیتے تو وہ لوگ ان کی کرامت یا معجزہ سمجھ کر ان کی پوجا شروع کر دیتے تھے۔ اس کرامت کے مسئلے کو صحیح طریقے سے ایک بڑے  صوفی عالم عبدالقادر جیلانی صاحب نے واضح کر دیا  ہےکہ اگر آپ کے سامنے کوئی کرامت کا دعوی کرے تو یہ چیک کریں کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں  کرتے تو آپ سمجھ لیجیے گا کہ کرامت صرف فراڈ ہی ہے۔ 

اس سے زیادہ عمدہ بات حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے۔ ایک بار آپ پہاڑ پر کھڑے تھے تو شیطان  کے کسی چیلے نے کہا کہ آپ پہاڑ سے جمپ لگا دیں۔ اس سے کنفرم ہوجائے گا  کہ آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں کہ نہیں؟ آپ نے فرمایا: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ مجھ میں ایسی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ میں اللہ تعالی کا امتحان کر سکوں۔ اس لیے تم پر لعنت ہو ، تم چلے جاؤ یہاں سے۔ 

سوال:  جب ہم خواب میں کسی زندہ یا فوت شدہ عزیز کو دیکھتے ہیں، توکیا یہ روحوں کا ملنا ہوتا ہے؟ فوت شدہ لوگ ہمارے خواب میں کس طرح آسکتے ہیں؟  اس حقیقت کے متعلق میری رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ

جواب:  خواب کے بارے میں دین میں کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ اس میں انسان اپنی نفسیات کی بنیاد پر ہی تجزیہ کر سکتا ہے۔ فوت شدہ حضرات کی بجائے آپ خود تجزیہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کو خواب میں اپنا کوئی بھائی نظر آئے  تو جو وڈیو چلی ہے، صبح اٹھ کر اسی بھائی سے پوچھیں کہ ان کو خواب میں کیا نظر آیا تھا؟ آپ ان کی کہانی بھی سن لیجیے، اگر ایک ہی کہانی سامنے آئے تو پھر صحیح ہے ورنہ کچھ نہیں ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ خواب میں اپنے تصورات اور آئیڈیا زہی  ممثل ہوکر نظرآرہےہوتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین کا اندازہ یہ ہے کہ  انسان کی اپنی خواہش جو ہوتی ہے تو وہ وڈیو کی شکل میں خواب میں نظر آ جاتی ہے۔ خاص طور پر بچپن میں جو خواہشات تھیں اور پوری نہیں ہوئیں تو انسان کے ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے خواب میں وہی خواہش پوری ہوتی نظر آئیں گی۔ 

انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں یہ کنفرم ہے کہ اللہ تعالی انہیں خواب کے ذریعے مستقبل کا پلان بتاتا رہا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو  مستقبل میں مصر کا ایگریکلچر  میں مستقبل کا پلان سجھا دیا۔  اور جب یہی خواب بادشاہ کو دکھا دیا تو اس کوحضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے مستقبل میں پیش آنے والے قحط کی تفصیل بتا دی۔ بادشاہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے آپ کو وزیر خزانہ بھی بنا دیا۔ 

حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتا دیا کہ آپ کے خواب کے اندر شیطان میری شکل میں نہیں آئے گا۔ ایک حدیث میں یہ بتا دیا کہ اچھا خواب آپ کو آئے تو اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل کا کوئی پلان ہمیں خواب میں آ جائے  جیسے آپ کو اچھی آمدنی ملے گی وغیرہ، تو ہم بھی اس کی پلاننگ کر سکتے ہیں۔  اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 

 سوال:  جب ہم کہتے ہیں فرقوں میں نہیں پڑنا چاہئے، تو کیا اس سے مراد موجودہ مذہبی فرقے ہیں جو خود کو بریلوی، دیوبندی اہلحدیث، حنفی، حنبلی وغیرہ کے نام سے متعارف کرواتے ہیں؟ یا اس سے مراد قدیم دور کے فرقے ہیں جیسا کہ شیعہ، معتزلہ، خوارج، قدری وغیرہ؟ یا  جو آج کل چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بن رہی ہیں؟  اگر ہم ان سب گروہوں کو چھوڑ دیں اور کسی ایک میں بھی شامل نہ ہوں تو کیا اس طرح امت کا شیرازہ نہ بکھر جائے گا؟ لوگ شتر بے مہار نہ ہوجائیں گے؟ اور جو احادیث میں جماعت میں شامل رہنے اور امیر کی اطاعت کی تاکیدیں موجودہیں، ان سے کیا مراد ہے؟

جواب:  آپ نے جس مشکل کا ذکر کیا ہے، حقیقت میں یہی ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی فرقہ کا حصہ بن جاتے ہیں تو پھر یہی فرقے شتر بے مہار بن جاتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگیں شروع کر دیتے ہیں۔ اسی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ امت کا شیرازہ بکھرتا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم تمام گروہوں کو چھوڑ کر خود قرآن مجید اور قابل اعتماد احادیث کا مطالعہ کریں تو اس پر عمل کریں۔ پھر اس کے ساتھ تمام فرقوں کے مخلص حضرات سے دوستی رکھیں۔ مخلص انسان کا انداز یہی ہوتا ہے کہ ان میں اختلاف رائے بھی ہو، تب بھی وہ دشمن نہیں بنتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہ شتر بے مہار نہیں ہوتے ہیں بلکہ دوستی جاری رہتی ہے۔ 

قرآن مجید میں اللہ تعالی کے جو احکامات ہیں، تمام فرقوں کے مخلص لوگ اسی پر عمل کرتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی شتر بے مہار نہیں ہوتے ۔ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اختلاف کے باوجود آپس میں دوستی رہتی ہے۔ یہ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان ایسے مسائل سوچتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، اس میں انسان آپس میں اختلاف کرتے ہیں۔ صرف انہی لوگوں میں دشمنی بنتی ہے جب انسان اپنے گینگ کو فرقہ بنا دیتے ہیں تو اپنے اختلاف کے نتیجے میں زبانی جنگ اور پھر اسلحے کے ساتھ جنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا مقصد موجودہ زندگی کے مفادات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ لہذا ان لوگوں میں اختلاف  بھی رہتا ہے  اور ایک دوسرے کے ساتھ گینگ وار  بھی جاری رہتی ہے۔ 

ایک یورپی اسکالر نے یہی تبصرہ کیا ہے کہ سائنسدان آپس میں اختلاف کرتے ہیں اور بحث کے ساتھ کافی چائے ، کھانا بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد پھر بھی اختلاف رہے تو دوستی کے ساتھ گلے لگا کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس مذہبی لوگوں کے اختلافات میں نفرت ہی چلتی ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں نے اپنی کتاب  امت مسلمہ کے گروہوں کا تقابلی مطالعہ میں  لکھ دی ہے۔ یہ اس کا لنک ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ ایک میلے میں اشتہار دیکھا تھا ، جس پر لکھا تھا کہ اس میلے میں کتوں کی لڑائی، پہلوانوں کی کشتی  اور مولویوں کا مناظرہ ہو گا۔ اس کا آپ خود تجزیہ  کر سکتے ہیں، تینوں کاموں میں فرق کچھ نہیں ہے۔ اس کے برعکس ایک بڑے مخلص  عالم کو کھانے پر بلایا گیا۔ وہ جب کھانے کے لئےجانے لگے تو انہیں معلوم ہوا کہ  میزبان لوگ کھانے کے بہانے مناظرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ چنانچہ اس عالم نے خط میں لکھ دیا کہ معذرت، میں نہیں آ سکتا۔ اگر آپ مناظرہ ہی کرنا چاہ رہے ہیں تو آپ جیت گئے ہیں۔ 

قدیم زمانے میں بڑے علماء میں اختلاف ہوتا تھا، تب بھی وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ اس کی مثال آپ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل  اور اسی طرح امام بخاری اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہم کی سیرت کو پڑھ لیجیے۔ ان میں اختلاف تھا لیکن آپس میں محبت جاری رہتی تھی۔  ان تمام بحثوں کو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نےاپنی کتاب الرسالہ میں واضح کرکے بتا دیا ہے۔ اس کا لنک یہ ہے؛

سوال:   اللہ کے عرش اور کرسی سے کیا مراد ہے؟

جواب:   بادشاہوں کے ہیڈ آفس کو عرش اور اسے کنٹرول کرنے والی سیٹ کو  عربی زبان میں کرسی  کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بتا دیا ہے کہ پوری کائنات کے ہیڈ آفس اور سیٹ کو قابو کرنے والا کوئی اور بادشاہ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

اس یونیورس کو کنٹرول کرنے والے ہیڈ آفس اور سیٹ کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے تاکہ ہم کچھ اندازہ کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اللہ تعالی کی ذات اور اس کے کنٹرول کو سمجھ نہیں سکتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی زبان کے ملتے جلتے الفاظ میں اندازہ سمجھایا گیا ہے۔  آخرت میں جس وقت اللہ تعالی سے ملاقات ہو گی تو اس وقت اللہ تعالی کے اس ہیڈ آفس (عرش)کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس موجودہ زندگی میں ہم کچھ نہیں  سمجھ  سکتے ۔ 

سوال: حدیث و تاریخ کے مطالعے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام بھی کئی معاملات میں تنازعات  اور اختلافات کا شکار رہے ہیں، ہمیں ان کے ان امور کے متعلق کیا رائے رکھنی چاہئے؟

جواب:  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا ہے۔ علمی اختلاف ہو سکتے تھے اور اسی طرح اپنی اسٹریٹیجی میں اختلاف ہو سکتا تھا۔ ایسا ہوا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آپس میں کبھی لڑائی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اختلاف کی حیثیت محض ڈسکشن کی ہی ہوتی رہی اور پھر وہ مل جل کر امرہم شوری بینہم کے اصول کے مطابق فیصلہ کرتے رہے۔ رہا ذاتی اختلاف تو یہ نارمل ہے جیسا کہ ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں اور اس میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی ہے۔ اس میں جعلی روایتیں کئی سالوں کے بعد لوگوں نے کہہ دیں۔ یہ صرف سیاسی فراڈ اور جعلی رپورٹس ہی ہیں، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہہ دی گئیں۔  ان روایات کا مکمل تجزیہ کر کے آپ کی خدمت میں حاضر کر دیا ہے۔ اس لنک میں کتاب اور لیکچرز موجود ہے۔ 

سوال:   ہر دور میں اور خاص طور پر موجودہ دور میں فتنوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:   فتنوں سے بچنے کے لیے پہلا کام ہمیں یہ کرنا ہے کہ اپنے رویے میں تبدیلی کرنی ہو گی اور تعصب سے جان چھڑانی ہو گی۔ اس کے بعد ہم دیکھیں کہ فتنہ ہے کیا؟ اس فتنہ کو دیکھ کر ہی ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس فتنے سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں ایک بڑا فتنہ  موجود ہے جسے ہم فرقہ واریت کہتے ہیں۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ تعصب سے جان چڑھا کر ہم اچھی طرح ٹیکنیکل تجزیہ کر کے تقابلی مطالعہ کریں تو جان چھوٹ سکتی ہیں تاکہ ہر معاملے میں یہ واضح ہو کہ  کہاں پر کیا غلطی ہے، جس سے ہمیں بچنا ہے۔

سوال: اگر کسی شخص نے کوئی نذر مان لی ہو مگر اسے اپنے وقت پر پوری نہ کرپایا ہوتو  کیا اس  کا کوئی کفارہ دینا ہوگا؟

جواب:  سب سے پہلے توہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ نذر سے مراد کیا ہے۔ نذر صرف اور صرف اللہ تعالی کے حضور ہی کی جا سکتی ہے جیسے قربانی یا معاشی طور پر اللہ تعالی کے حضور کوئی رقم رکھنا اور پھر  غریب لوگوں کی اس رقم سے خدمت کر دینا۔ اگر اللہ تعالی کے حضور کوئی نذر کی نیت کی ہو، پھر کسی وجہ سے نہیں کر سکتے تو اس کا حل یہی ہے کہ بعد میں کر لیں۔ یہ بھی نہیں ممکن ہے تو پھر تین روزے ہی رکھ لینے چاہئیں۔ 

اگر نذر، اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور سے مانی ہو تو پھر اس کی دین میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور یہ غلط حرکت ہے۔ اگر پہلے  کبھی  ایسی  نذر مانی ہو تو ہمیں اس نذر پر کوئی عمل نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالی سے توبہ کر لینی چاہیے۔ 

Your further questions send to email at mubashirnazir100.gmail.com.

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse

Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse

Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse

Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us

Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33

Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114

Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War

Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory

Quranic Studies

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5

علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33

علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49

علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

فلسفہ الہیات سے متعلق ماڈرن سوالات
Scroll to top