سورۃ النساء 4 کے مطالعے میں شریعت سے متعلق سوالات ۔۔۔ حج، کھانا، شادی اور غلامی کا خاتمہ

 سوال:  رکوع اور سجود سے یہ سمجھ آ رہی ہے کہ پہلی امتوں پر بھی بالکل اسی طریقہ سے نماز فرض تھی جیسے آج کل کے مسلمان پڑھتے ہیں؟

اسامہ ذوالفقار عباسی، آزاد کشمیر

جواب:  آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ ابھی آپ یو ٹیوب پر یہودیوں کی نماز کو دیکھ لیجیے تو وہ بالکل ہماری طرح ہی نماز پڑھتے ہیں۔ عیسائی حضرات بھی پہلے ایسے ہی نماز پڑھتے تھے۔ لیکن کئی صدیوں بعد انہوں نے نماز کو صرف دعاؤں کی حد تک ہی رکھا ہے، ورنہ وہ پہلے اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ اس کے لیے آپ کو بائبل ہی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز میں رکوع، سجدہ سب نظر آئے گا۔ 

 سوال:  صفہ، مروہ اور حج کے بارے میں وضاحت فرمادیں؟

جواب:  یہ تفصیلی موضوع ہے ، اس کے لئے  آپ میری کتاب اور لیکچرز میں سن لیجیے۔ صفہ اور مروہ دو پہاڑیاں ہیں جو کعبہ کے قریب ہی ہیں ۔ حج اور عمرہ میں صفہ و مروہ کی طرف ہم واک کرتے ہیں جسے سعی کہا جاتا ہے۔ حج کا مقصد شیطان کے خلاف جنگ کی پریکٹیکل ایکسرسائز ہے۔ حج ہی کا آسان ورژن عمرہ ہے۔  

کتابیں اور لیکچرز ان لنکس پر ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو عمرہ اور حج کے سفرنامے میں بھی پڑھ اور سن سکتے ہیں جس میں تصاویر بھی مل جائیں گی۔ 

سوال: سورة النساءکی آیت ٢٨ سے ١٠٤  کے مطالعے کے دوران کچھ سوالات پیدا  ہوئے ہیں جو کہ بالترتیب   پیش  خدمت ہیں۔ آیت نمبر ٧٥ میں کن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مدد کے لیے پکار رہےہیں؟

 جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں پرزیکیوشن ہو رہی تھی جسے اردو میں مذہبی جبر کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جو شخص بھی مذہب تبدیل کرتا تو اس کے فیملی اور قبیلہ والوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ اس وقت عرب قبیلوں میں شرک عام تھا اور اسی ٹائم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت یعنی قرآن مجید پہنچ رہا تھا۔ جو لوگ بھی قرآن مجید سے متاثر ہوتے اور شرک چھوڑ دیتے تو ان پر تشدد کیاجاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت بن گئی تو آپ پر اللہ تعالی کا حکم آیا کہ جو لوگ بھی ایمان لائے ہیں، آپ پر ذمہ داری ہے کہ ان کی مدد کریں اور مذہبی جبر سے انہیں بچا لیں۔ 

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایکشن کیا۔ جن قبیلوں میں لوگوں کو آسانی تھی، تو وہ اپنا قبیلہ چھوڑ کر مدینہ منورہ میں پہنچ جاتے اور آسانی سے آزاد ہو جاتے تھے۔ جو اپنے قبیلوں میں پھنسے ہوئے تھے تو پھر ان قبیلوں سے جنگ کی گئی اور اہل ایمان کو آزاد کروا دیا۔ 

 سوال: سورۃ النساءآیت نمبر ٧٨ میں ہے کہ ہر معاملہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ آیت ٧٩ میں ہے کہ جو بھلائی تم کو پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جبکہ برائی تمہارے نفس کی وجہ سے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

 جواب: لوگوں کی آزادی کے لیے جو جہاد ہو رہا تھا تو اس وقت مدینہ منورہ میں منافقین موجود تھے اور وہ اس جہاد کو روکنے کے لیے اپنا پراپیگنڈا کر رہے تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے خلاف پولیس ایکشن کاحکم دیتے تو انہی کے رشتے دار منافقین نے پروپیگنڈا کرنا تھا کہ یہاں جنگ نہ کرنا ورنہ یہ مسئلہ آ جائے گا۔ اللہ تعالی نے پھر اس کا جواب اگلی آیات میں دیا ہے۔  برائی ان منافقین کے پراپیگنڈا میں تھی اور اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سمجھا دیا کہ آپ تو لوگوں کی مدد کے لیے جہاد کر رہے ہو،تو اس میں اللہ تعالی ہی بھلائی پہنچا تا ہے۔ اس طرح سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذہن کلیئر ہو جاتا ہے اور وہ پھر اہل ایمان کو آزاد کرانے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ 

 سوال: سورۃ النساء کی آیت نمبر٨٨  پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو شخص بھی گمراہ ہوتا ہے اللہ کی  مرضی سے ہوتا ہے؟

جواب:   اس میں اللہ تعالی نے بتایا کہ اللہ تعالی اس شخص کو ہدایت دیتا ہے جس کی نیت درست ہے۔ منافقین میں کچھ لوگ تو پکے منافق تھے اور وہ شرک ہی پھیلانا چاہتے تھے، اس لیے اللہ تعالی نے انہیں اسی گمراہی میں گرنے دیا ہے۔ انہی منافقین کے اکثر لوگ ایسے تھے جو اپنے لیڈرز کے پراپیگنڈا سے متاثر ہوئے تھے۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کو قرآن مجید کی آیات سناتے تو ان لوگوں کو کلیئر ہو جاتا تھا کہ یہ پراپیگنڈا محض جھوٹ ہے۔ پھر ان کا ذہن کلیئر ہوتا تو وہ منافقین کو چھوڑ کر مخلص بن جاتے  اور ہدایت پر آ جاتے تھے۔ 

پراپیگنڈا کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے جھوٹ کو اتنا زیادہ پھیلا دیا جاتا ہے کہ لوگوں کے ذہن کنفیوز ہو جایا کرتے ہیں۔ پھر جن کی نیت خراب ہوتی ہے تو اللہ تعالی اسے ان کی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے جبکہ جس کی نیت درست ہو، تو وہ کنفیوژن سے نکل کر صحیح ہدایت کی طرف آ جاتے ہیں۔ آپ پراپیگنڈا کے موضوع پر میری کتاب اور لیکچرز دیکھ سکتے ہیں۔  ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر کی بات یہی ہے کہ جھوٹ اتنا بولنا ہے کہ ہر انسان اسے مان ہی لے۔ 

https://en.wikipedia.org/wiki/Big_lie

سوال:  احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت کی کیا حکمت ہے؟

جواب:  احرام کی حالت کی وجہ کیا ہے؟ اصل میں حج اور عمرہ کی عبادت کا مقصد یہی ہے کہ ایک بار زندگی میں پریکٹیکل ایکسرسائز کریں کہ ہم شیطان کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ زندگی میں ایک بار ہم یہ جہادی ایکسرسائز کر لیں تو پھر پوری زندگی میں ہم شیطان کے خلاف جہاد ہی کرتے رہیں گے۔ 

اب آپ دیکھیے کہ جب بھی فوجی جنگ کی حالت میں آتے ہیں تو ان پر ڈسپلن کے طور پر کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ وہی حالت حج اور عمرہ میں ہوتا ہے کہ ہم احرام باندھتے ہیں تو ہم پر معمولی سی پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ اس میں زیادہ ٹائم نہیں لگتا ہے۔ حج کے موقع پر صرف 4-5 دن تک کی پابندی ہوتی ہے جبکہ عمرہ کی صورت میں صرف 3 گھنٹے ہی لگتے ہیں۔ احرام کی حالت شروع ہوتی ہے جسے میقات کہا جاتا ہے۔ میقات  کی جگہ سے لے کر حرم شریف تک صرف 70-100 کلومیٹر ہی لگتے ہیں۔ اس میں حکمت یہ بھی بن جاتی ہے کہ ہم نے شکار نہیں کرنا بلکہ صرف شیطان سے جنگ کرنی ہے۔ 

ہمارے زمانے میں شکار کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس شکا ر کرنےکی ضرورت  ہی نہیں ہوتی ۔ ہم تو درمیان میں ہی جہاں بھوک لگے ریسٹورنٹ میں کھانا کھا لیتے ہیں۔ قدیم زمانے میں ریسٹورنٹ نہیں ہوتے تھے بلکہ لمبے سفر میں شکار ہی سے کھانا بن  سکتا تھا۔ اس وقت اونٹ پر سفر میں ایک دن میں مشکل سے 50 کلومیٹر ہی سفر ہوتا تھا۔  اس طرح ملٹری ڈسپلن کے ساتھ احرام کی حالت میں دو دن تو لگ جاتے تھے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت کے طور پر لمبی میقات بنا دی جو 400 کلومیٹر لمبی ہے۔ اس زمانے میں یہ 8 دن کا سفر تھا۔ اب ڈسپلن کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سبزی  یا کھجور وغیرہ  ہی لے کر کھانا بنانا پڑتا تھا۔ 

ایک بار ایک صحابی نے غلطی سے شکار کر لیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کھانے کو روک دیا اور ان صحابی  پر پینلٹی بھی لگی کہ اب انہیں قربانی کرنی ہو گی۔ 

 سوال: ہدی کے جانور سے کیا مراد ہے؟

جواب:  اس زمانے میں حج کے لیے لوگ اپنے گھر کے جانور اٹھا کر مکہ مکرمہ لے جاتے تھے اور وہاں قربانی کرتے تھے۔ اس میں ہدی کے جانوروں پر ایسی نشانی بھی لگا دیتے تھے جنہیں بیچ میں کوئی چور ڈاکو بھی دیکھتا تو وہ اس جانور پر قبضہ نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر آج تک یہی معاملہ رہا ہے کہ ڈاکو بھی حج و عمرہ کرنے والوں پر مسئلہ  پیدا نہیں کرتے رہے۔ 

 سوال:  جانوروں کے گلے پرپٹے باندھنے سے کیا مراد ہے؟

جواب:  پٹے کا مقصد وہی تھا کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں جو حج پر جا رہے ہیں۔ وہ پٹے بھی ایسی شکل کے تھے جسے ہر قبیلے کے لوگ جانتے تھے کہ یہ حج کی قربانی کے جانور ہیں۔ 

 سوال:  مسلمانوں پر کون کون سے جانور حلال ہیں؟قرآن میں تو صرف مردار، خنزیر، لہو اور غیر اللہ سے منسوب جانور کے حرام ہونے کا ذکرہے؟

جواب:  قرآن مجید میں مردار، خنزیر اور  لہو (خون) کو حرام بتا دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں میں کوئی کنفیوژن نہ رہے۔ اصل میں ہر انسان کو اس کی  فطرت میں بتا دیا گیاہے کہ کون سا جانور کھانے کے قابل ہے یا نہیں۔ تمام انسان خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم جانتے ہیں کہ شکاری جانور نہیں کھانے چاہئیں جیسے شیر، چیتا، کتا وغیرہ۔  پودے کھانے والے جانور سب جائز ہیں جیسے اونٹ، گائے، بکرے وغیرہ۔ انسانوں میں صرف کنفیوژن خنزیر پر ہے جسے اللہ تعالی نے بتا دیا ہے کہ یہ بھی کھانے کے قابل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور یہودی خنزیر کو نہیں کھاتے ہیں۔ دیگر غیر مسلم انسان خنزیر کو کھا لیتے ہیں کیونکہ عیسائیوں نے تورات کو چھوڑ دیا ہے۔ 

رہے چین اور روس کے انسان تو وہ اپنی فطرت کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور اپنی فطرت کے خلاف ہی کھانا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح عرب لوگوں میں یہ حرکت شروع کر دی تھی کہ وہ خون اور مردار جانور کھانے لگے تو اللہ تعالی نے انہیں بھی سمجھا دیا کہ یہ حرام ہیں۔ 

 سوال: کیامسلمان مرد اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کر سکتا ہےاور کیا مسلمان خواتین کے لیے بھی یہی حکم ہے؟

جواب:  اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اجازت دے دی کہ  اہل کتاب کی خواتین سے شادی کر سکتے ہیں لیکن اہل کتاب کے مردوں سے مسلمان خواتین کو اجازت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ  نےفتح دے دی تھی اور اہل کتاب اب سرنڈر بن چکے تھے۔ امید تھی کہ شادی کر کے ان خواتین کی تربیت بھی ہو جائے گی اور وہ سب بھی ایمان لے آئیں گی۔  نہ بھی ایمان لائیں تو  ان سے پیدا شدہ بچے تو ایمان پر آ جائیں گے۔ 

یہ الگ بات ہے کہ ہمارے زمانے میں مسلم ممالک بھی اب اہل کتاب بلکہ ملحدین کی حکومتوں سے سرنڈر ہو چکے ہیں۔ اس میں مسلمان مرد بھی غیر مسلم خاتون سے شادی کر لیں تو پھر وہ خاتون ایمان نہیں لاتی،  بلکہ ان کے بچے بھی دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے موجود ہ زمانے میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جب بھی مخلص مسلم حکومتیں آزاد ہو جائیں تو تب پھر وہی اجازت مل جائے گی کہ اہل کتاب  کی خواتین سے شادی کر سکتے ہیں۔ 

سوال:  مہر کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں ضروری ہوتا ہے؟

جواب:  مہر اسے کہتے ہیں جیسے شادی کے وقت کچھ رقم یا کوئی اچھا تحفہ بیگم کو دیا جائے۔ اس کی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ شادی کرتے ہوئے مرد اعلان کرتا ہے کہ اپنی بیگم کی ساری عمر کے لیے معاشی خدمت کروں گا۔ اس اعلان پر ثبوت کے لیے ٹوکن کے طور پر ایک عمدہ تحفہ بیگم کو دیا جاتا ہے جسے مہر کہتے ہیں۔ دین میں اس تحفے کی کوئی لمٹ نہیں ہے کیونکہ ہر انسان کی اپنی معاشی حالت کے لحاظ سے وہ تحفہ دے گا۔ 

ہمارے ہاں ایک احمقانہ لمٹ کر دی گئی ہے،جسے بے وقوفی کے ساتھ شرعی مہر  32 روپے کہتے ہیں۔ اصل میں اورنگزیب عالمگیر صاحب کی حکومت (1657-1707) میں یہ قانون سازی کی گئی کہ اس مہر  کےتحفے کی کم سے کم لمٹ ہونی چاہیے۔ ان کے زمانے میں ایک روپے کی بڑی ویلیو ہوتی تھی جسے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ 32 روپے اتنے ہی تھے جتنے آج کل 32 برٹش پاؤنڈ کے برابر ہوتے تھے جو معقول رقم تھی۔ ان کے لیے  قانون سازی کی ضرورت  اس لیے تھی کہ کئی لوگ معمولی رقم سوچنے لگے تھے اور مقدمے عدالت میں آ گئے تو تب بادشاہ نے کم از کم کی لمٹ رکھ دی۔ آج کل 32 روپے کی اتنی حیثیت ہی ہے کہ آپ کچھ بسکٹ ہی کھلا سکتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں غریب آدمی کے لیے بھی مہر 5000 روپے معقول ہو سکتی ہے۔ 

 سوال:  لونڈیوں کو آزاد خواتین کے مقابلے میں آدھی سزا کی کیا حکمت ہے؟

جواب:   اس کے لیے آپ جسمانی اور ذہنی غلامی کی تاریخ کا مطالعہ ضرور کر لیجیے۔ اصل میں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کئی لڑکیوں کو جنگ کے دوران یا اغوا کر کے غلام کر دیا جاتا تھا اور پھر ان لونڈیوں کو طوائف بنا دیا جاتا تھا۔ ان لڑکیوں کی تربیت ایسی کی جاتی تھی کہ وہ بس فحاشی ہی کرتی تھیں۔ اس کی یہ شکل اب بھی موجود ہے جس میں ان طوائف کی بچپن سے تربیت یہ کی جاتی ہے۔  میں اس موضوع پر کتاب کا لنک شیئر کرتا ہوں آپ اس کا مطالعہ ضرور کیجیے،اس میں لونڈیوں والے چیپٹر کا مطالعہ پہلے کر لیجیے گا۔ 

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت بن گئی تو آپ نے غلامی کو ختم کیا اور   یہ بھی حکم دیا کہ ان طوائف  لڑکیوں کو آزاد کرتے ہوئے ان کی اچھی تربیت کی جائے تاکہ ان کی شادیاں ہوں۔ پھر آخر میں یہ حکم بھی دیا کہ بعد میں ان لڑکیوں کی تربیت کے باوجود پرانی عادت سامنے آئے، تو ان کو آدھی سزا دی جائے گی۔ فحاشی کی سزا 100 کوڑے ہیں اور لونڈی کی سزا 50 کوڑے ہیں کیونکہ اسے بچپن سے غلط تر بیت کی گئی تھی۔ 

 سوال: سورۃ النساء کی  آیت ٢٥ میں ہے کہ نکاح کی اجازت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو گناہ پر پڑنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو بہتر ہے، سے کیا مراد ہے؟

جواب:  جیسا کہ اوپر لونڈیوں کی ہسٹری کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کو طوائف بنا دیا جاتا تھا۔اب طوائف  کی تربیت پانے والی لونڈیوں سے کوئی شادی کرنے کو تیار نہیں تھا اگرچہ وہ آزاد ہو گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالی نے تربیت دی  کہ ان سے شادی کر لیں اور ان کی تربیت بھی کر دیں۔ اب ظاہر ہے کہ پرانی طوائف کی تربیت آسان نہیں تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ جن کے پاس زیادہ رقم نہیں ہے لیکن وہ بدکاری  میں پڑ سکتے ہیں، اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ ان لونڈیوں کو آزاد کر کے  ان سے شادی کرلیں اور ان کی تربیت کریں۔ 

عام آدمی کے لیے بڑا مشکل کام تھا کہ وہ ان لونڈیوں کی تربیت کریں۔ پھر تو یہ بھی خطرہ تھا کہ اس نارمل آدمی کی اپنی تربیت الٹی نہ ہو جائے۔ فرض کیجیے کہ آج آپ کسی طوائف لڑکی سے شادی کریں تو آپ کی زندگی میں مصیبت  پیدا ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس لڑکی کی تربیت ٹھیک نہ ہوئی ہو اور وہ پھر غلط حرکت کردے تو آپ کو تو اپنے گاؤں میں مشکل پیدا ہو جائے گی اور آپ کا اسٹیٹس گر جائے گا۔ پھر پورے علاقے میں آپس میں لڑائیاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔ 

Your questions should go to mubashirnazir100@gmail.com.

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse

Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse

Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse

Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us

Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33

Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114

Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War

Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory

Quranic Studies

Comments on “Quranic Studies Program”

Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5

علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33

علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49

علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

سورۃ النساء 4 کے مطالعے میں شریعت سے متعلق سوالات ۔۔۔ حج، کھانا، شادی اور غلامی کا خاتمہ
Scroll to top