السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، میرے کچھ سوالات جن کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں، مجھے ان پر رہنمائی کی ضرورت ہے، سوالات درج ذیل ہیں؛
سوال : مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ دین الہامی ہے اور وحی کے ذریعے قران رسول اللہ پر نازل ہوا ہے۔ لیکن فلسفے کو دیکھیں تو وہ انسانی عقل کو علم کے طور پر بیان کرتا ہے اور عقل کی ایکسٹینشن سے دین کو جوڑ دیتا ہے۔ اب اس کے جواب ميں وہ یہ کہتے ہیں کہ انسانی معاشروں نے جب اکٹھا رہنا شروع کیا تو مختلف رسومات نے جنم لیا اور یہی مذہب کی حقیقت ہے لہذا مذہب کوئی عقلی مقدمہ نہیں, بلکہ ایک اعتقادی چیز ہے۔
اس کے حق میں وہ باقی مذاہب مثلاََ ہندومت ،بدھ مت وغیرہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس مقدمہ کے جواب میں اسلامی اسکالرز دو طرح کی پوزیشنز لیتے ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کو مذہب سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں اور دوسری پوزیشن یہ ہے کہ اعتقاد پر زور دیتے ہیں اور مذہب کو پہلے ایک اعتقادی مقدمہ کہتے ہیں اور پھر عقل کی روشنی میں اِسکی حدود سے تجاوز نہیں کر پاتے۔ سوال یہ ہے کہ مذہب کی صحیح بنیاد کیا ہے، جس پر اسے آج کے دور میں پیش ہونا چاہیے؟ کیا 1400 سال پہلے مذہب جس بنیاد پر پیش ہوا تھا وہ آج کے دور میں کسی طرح ویلڈ بھی ہے؟اگر ہے تو وہ کیا بنیاد ہے ؟
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی آپ کا سوال موجودہ زمانے کے اعتبار سے بہت عمدہ ہے، کوشش کروں گا کہ سادہ انداز میں اس کو سمجھ لیا جائے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ واضح فرمادیا کہ یہ زندگی صرف امتحان کے لیے ہے ، جیسے ہم ایگزام سینٹر میں بیٹھے ہوئے ہوں۔ اب اگر ہم اللہ تعالی کاا مشاہدہ کرلیتےاور ہماری اس کے ساتھ گفتگو ہوتی تو پھر امتحان کس چیز کا ہوتا۔ پھر تو یہ ایگزام کی بجائے، اللہ تعالی سے کلاس میں بیٹھے سن ہی رہے ہوتے، اس طرح یہ امتحان تونہ ہوتا۔ اللہ تعالی اس کےلیے کلاس کے طور پر اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے ان کی امتوں کوپڑھاتے رہے۔ پھر ایگزام بھی ساتھ چلتا رہا ،جو عمل ہم نے ذہن اور جسم کے ساتھ کئے تھے وہ ہماری امتحانی کاپی کے طور پر اللہ کے پاس محفوظ کردیے گیے ہیں جس کا رزلٹ ہمیں آخرت میں ملنا ہے۔
فلسفیوں کو یہی غلط فہمی پیدا ہوئی کہ جب ہم اس کائنات کی اشیاء کا مشاہدہ کر سکتے ہیں تو پھر اللہ تعالی کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی فلسفہ جب یونان اور انڈیا سے پھیلا تو تمام لوگوں تک پہنچا دیا گیا۔ پھر اس کے بعد صوفیا نےاس کو قبول کرکے کچھ طریقے ایجاد کیے اور دعوے کئے کہ ہاں، ہم اس طرح اللہ تعالی سے تعلق قائم کر سکتے ہیں۔
یہی تصور پھر بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت، یہودیت اور مسلمانوں میں پھیل گیا اور یہ تصوف اور اس کے نظریات آج تک موجود ہیں۔ صوفیاء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ الہامی دین تو وہ ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعےسے پہنچا ہے۔ مگریہ دین ان چھوٹے موٹے انسانوں کے لیے ہے۔ جو بڑے اعلی انسان ہوتے ہیں، وہ ڈائرکٹ اللہ تعالی سے گفتگو، رابطہ اور مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ تمام انسان دو قسم کے مذاہب میں تقسیم ہیں: ایک الہامی مذاہب اور دوسرے فلسفیانہ تصوف۔ مسلمان جب فلسفیانہ تصوف سے متاثر ہوئے تو انہوں نے الہامی اور فلسفیانہ تصوف کو مکس کرنے کی کوشش کی اور بعض صوفیا نے شریعت کو بھی یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ وہ صرف عام انسانوں کے لیے ہے۔ اس نظریے کی کچھ اصلاح کر کے اس کی اعلیٰ شکل میں غزالی صاحب اور شاہ ولی اللہ صاحب نے پیش کیا ہےوہ بھی اس لئے کہ وہ شریعت پر قائم تھے۔ موجودہ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور چند اہل حدیث علماء بھی اسی مکس مذہب کے قائل ہیں جس شکل میں شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے پیروکار وں نے پہنچایا ہے۔
غزالی صاحب کی اس مکس شکل پر ابن تیمیہ صاحب اور ابن قیم صاحب نے تفصیلی علمی تنقید پیش کی ہے۔ پھر یہی مکس مذہب عرب ممالک میں زیادہ پھیلا ہے ۔ لیکن اب یہ چیز گلوبل بن رہی ہے کہ فلسفیانہ تصوف کو مکمل چھوڑ کر صرف اور صرف الہامی مذہب پر ہی قائم رہا جائے۔
میں ایک ذاتی تجربہ شیئر کرتا ہوں کہ 1997-1998 میں ایک دوست حافظ عاطف صاحب سے یہی ڈسکشن چلتی تھی کہ ماڈرن دینی ایجوکیشن کے میدان میں خدمت کریں۔ پھر پریکٹیکل یہی ہوا کہ عاطف بھائی تو شاہ ولی اللہ صاحب کے طریقہ کار پر ماڈرن دینی مدرسہ بنا چکے۔ میرا ان کے ساتھ اختلاف یہ ہوا کہ میں نے کہا کہ ہمیں صرف اور صرف پیور الہامی مذہب کے مطابق ہی ایجوکیشن سسٹم بنانا چاہئے، آج جس دینی سسٹم کی خدمت میں کر رہا ہوں یہ وہی ہے خالص الہامی تعلیمات کے مطابق اڈاپٹ کیا ہوا سسٹم ہے۔ مجھے اصل میں تصوف سے اختلاف اس “نفسیاتی غلامی” والے طریقے سے پیدا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے میں تصوف کے راستے سے نکل گیا۔
سوال نمبر 2: فلسفے کا ایک بنیادی مقدمہ ہے کہ کوئی بھی علم اپنے زمانے کی علمیات اپلسٹیمولوجی سے تجاوز نہیں کرتا۔ اور اسی طرح قران پاک جس دور میں نازل ہوا ہے اِس نے بھی اپنے دور کی اپلسٹیم سے تجاوز نہیں کیا اور عرب کے لوگ جن اعتقادی بنیادوں پر مذاہب کو مانتے تھے اسی بنیاد پر ہی مذہب نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ لٰہذا یہ خدائی کلام تو ہو نہیں سکتا یہ انسانی عقل کا تراشا ہوا ہی ہے۔تو کیا دلیل ہے کہ مذہب الہامی ہے ؟
جواب: فلسفہ اور دین میں بنیادی فرق یہی ہے۔ اہل فلسفہ اوراہلِ تصوف حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے ہم خود تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ جب کہ الہامی مذاہب یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے براہ راست گفتگو و رابطہ نہیں کر سکتے ، ہم صرف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے ہی اللہ تعالی کا پیغام سمجھ سکتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ الہامی مذہب کی اس پر کیادلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔ الہامی مذہب ہے کیا؟ اسے آپ قرآن مجید اور تورات میں پڑھ لیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی کے کچھ سلیکٹڈ انبیاء کرام ہوتے ہیں، جنہیں رسول کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے انہی رسولوں کے ذریعے پریکٹیکل طریقے سے جزا و سزا کو اسی زندگی میں کر کے دکھا دیا۔ اس کی مثال قرآن و تورات میں ہے ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام۔ اس میں اسی دنیا میں ان کے منکرین کو تباہ کر دیا جو کہ ان کے لئے سزا تھی۔ اسی طرح جو ان پر ایمان لائے تھے،انہیں اسی زندگی میں شاندار زندگی بھی دے کر دکھا دی۔
اس کے برعکس اہل تصوف اور اہل فلسفہ سے پوچھ لیجیے کہ ان کے مذہب کے مطابق بھی اللہ تعالی نے کچھ کر کے دکھا یا ہے یا نہیں؟ اگر وہ کہیں کہ اللہ تعالی نے کر کے دکھا دیا ہے، تو پھر ان سے پوچھ لیں کہ وہ پریکٹیکل کہاں ہوا ہے ذرا آپ دکھا دیجیے؟
سوال نمبر3: قران پاک کو اگر ہم پڑھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ علت و معلول کا ہی ایک سلسلہ ہے۔ جیسا کہ ڈیوڈ ہیوم کا فلسفۂ علت و معلول ہے مثلاً جہاں چوری ہوئی وہاں سزا سنائی گئی، جہاں زنا ہوا اُس کی سزا سنائی گئی، جہاں کفار نے رسول اللہ کو زبان سے اذیت پہنچائی وہاں اُن کا جواب دے دیا گیا۔ اسی طرح قران سارا کا سارا علت و معلول کا چربہ معلوم ہوتا ہے اور اس نقطۂ نظر سے خدا کی حیثیت اتھارٹی نہیں رہتی بلکہ ایک ترجمان کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ علت و معلول تو انسانی علم ہی ہے اور قران خود بھی علت و معلول کا سلسلہ ہے تو اس میں خدا کہاں سے آگیا؟
Cause and Effect = علت و معلول
جواب:اس میں فرق یہ ہے کہ ڈیوڈ ہیوم صاحب نے کاز اینڈ ایفیکٹ کو اسی کائنات کا قانون سمجھا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے مجرم ایسے ہوتے ہیں جو چوری، ڈکیتی اور دہشت گردی تو کرتے ہیں۔ لیکن ان پر کاز اینڈ ایفیکٹ کا اثر سامنے نہیں آتا ہے۔ اس کی مثال آپ خود دیکھ لیجیے کہ افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں بہت سے دہشت گردوں کو سزا نہیں دی گئی ہے، ہاں چند ایک ہیں جنہیں سزا ہوئی ہے۔ اسی طرح بڑے مجرم جیسے ہٹلر، ہلاکو خان وغیرہ کو انسان سزا نہیں دے سکے ۔
اس کے برعکس الہامی مذاہب میں بتا دیا گیا ہے کہ رسول کے زمانے میں تو اسی زندگی میں جزا و سزا کو نافذ کر کے دکھا دیا جاتا رہاہے۔باقی تمام لوگوں کے لئےیہ جزا و سزا کا نفاذ آخرت میں ہو گا۔ اس زندگی میں اس لیے کبھی سزا نہیں ہوتی کہ اللہ تعالی نے اس زندگی کو امتحان کے طور پر چھوڑ دیا ہے۔ ورنہ فرض کر لیجیے کہ آج میں نماز پڑھوں تو ایک ملین ڈالر مجھے فوراً جیب میں آ جائیں اور آج کوئی دہشت گردی کروں تو فوراً سزا مل جائے۔ تو پھر یہ بتائیے کہ یہ کیسا امتحان ہو سکتا ہے، پھر تو ہر انسان نیکی ہی کرتا رہے گا۔
بعض فلسفی حضرات جیسے ہیوم اور کارل مارکس وغیرہ نے یہ سمجھا کہ ہم اس زندگی میں آئیڈیل نظام قائم کر سکتے ہیں۔ پھر آپ پریکٹیکل دیکھ لیجیے کہ روس اور چین میں کارل مارکس کا فلسفہ کامیاب ہوا لیکن انسانیت کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس میں فائدہ تو صرف لیڈرز کو ملا ہے جبکہ عام انسانوں کو غلام ہی بنا دیا گیا ہے۔ روس اور چین دونوں کی شکل ایک جیسی ہی ہے۔ اس کی نسبت کیپیٹل ازم والے ممالک جیسے امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں انسانوں کو کتنی آزادی حاصل ہے؟
اس سے یہ کافی ثبوت مل جاتاہے کہ یہ زندگی کبھی آئیڈیل نہیں ہو سکتی ہے بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے جو بتایا ہے کہ یہ سب کچھ آئیڈیل زندگی آخرت میں ہونی ہے۔ اس موجودہ زندگی میں کاز اینڈ ایفیکٹ کا رزلٹ آخرت میں آنا ہے۔ اب آپ انہیں ثبوت سے دیکھ لیجیے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بات درست ہے یا ہیوم یا کارل مارکس کی؟
سوال نمبر 4: قران پاک کو اگر پڑھیں تو یہ ایک خاص دور کی سرگذشتِ علت و معلول بیان کرتا ہے تو آج کے دور میں اِسکی ریلیونس کیسے ہو سکتی ہے؟
جواب: اس میں ریلیونس یہی ہے کہ اس زندگی میں صرف امتحان ہی ہے۔ ان امتحانات کا رزلٹ آخرت ہی میں ملنا ہے۔ قرآن مجید اور تورات کا اعلان یہی ہے۔ استثنائی طور پر یہ رسولوں کے زمانے میں کر کے دکھا دیا گیاہے۔ باقی تمام انسانوں کو رزلٹ آخرت ہی میں ملنا ہے۔
سوال نمبر5: مذہب کا تصورِ اِخلاق کوئی آب جیکٹو شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک سب جیکٹو چیز ہے مثلاََ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ کرے گا اگر اُس کا دل چاہے، ورنہ اگر وہ نہ بھی کرے تو اِس میں کوئی بھی چیز غیر اخلاقی نہیں ۔کیونکہ اخلاقیات تو ہر معاشرے میں مختلف پائی جاتی ہیں ۔ تو اس صورتِ حال میں مذہبی اخلاقیات کی ضرورت بھلا کس طرح ہو سکتی ہے ؟
جواب:اس تصور میں بھی غلط فہمی موجود ہے۔ اخلاق کا اصول یہی ہے کہ ہر اس انسان کی مدد کی جائے جس کے لئے ہمارے اندر طاقت ہو۔ یہ کبھی سب جیکٹو نہیں ہو سکتا ہے بلکہ آب جیکٹو ہے۔ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مثلاً کسی بھی ملک میں کوئی کمزور انسان دریا یا نہر میں گر جائے اور میں دیکھ رہا ہوں اور مجھ میں طاقت بھی ہو تو کیا میں اس کی مدد کروں یا نہ کروں؟ اس میں کسی انسان کو بھی اختلاف نہ ہو گا بلکہ ہر انسان کہے گا کہ اس کمزور انسان کی مدد کریں۔ یہیں سے ثابت ہے کہ اخلاق آب جیکٹو ہی ہے۔
اس کی اور مثالیں بھی آپ سوچ سکتے ہیں۔ منفی مثال یہ دیکھ لیجئے کہ اگر ہم کسی سے فراڈ کر کے رقم چھین لیں تو اس پر ہر ملک کا انسان بلکہ جنگل کا انسان بھی کہے گا کہ یہ بری حرکت ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
البتہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے مفادات کی وجہ سے اپنی اعلی اخلاقیات کو مسخ کر لیتے ہیں۔ جیسے سیاستدان یا بیوروکریٹس اس اخلاق کو مسخ کر کے کرپشن کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن تمام ممالک کے انسان یہی کہتے ہیں کہ یہ لوگ کرپٹ ہیں اور وہ مجرم ہی ہیں۔ اس میں کوئی بھی اختلاف انسانوں میں نہیں پایا جاتا بالخصوس ان انسانوں میں جو اپنی فطرت پر قائم ہیں۔ ہاں جو فطرت کوہی مسخ کر لیں تو وہ سب جیکٹو بن جاتے ہیں۔
اخلاق کی پوری لسٹ آپ خود بنا لیجیے اور مختلف ممالک کے ہزاروں انسانوں کا انٹرویو کر کے دیکھ لیجیے تو آپ کو ثبوت مل جائے گا کہ اخلاقیات آب جیکٹو ہیں یا سب جیکٹو ہیں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے دوست ملحدین کی کیا خدمت کریں؟ اس میں ہم صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ ان کے سوالات کا جواب دیں اور پھر رزلٹ کو اللہ تعالی کے حوالے چھوڑ دیں۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ چند منٹ میں ہی ایمان لے آئیں، بلکہ اس کے لیے کئی سالوں کا پراسس جاری رہے گا۔ اگر وہ مخلص ہوئے تو کئی سال بعد ایمان لائیں گے اور اگر مخلص نہ ہوئے تو وہ نہیں لائیں گے۔ اس دوران زندگی میں اللہ تعالی کی جانب سے انہیں ثبوت بھی ظاہر ہوتے رہیں گے اور اگرپھر بھی وہ انکار کریں تو یہ کفر ہو گا جس میں وہ جہنم کے لیے مستحق ہوں گے ورنہ پھر وہ ابھی تک امتحانی سینٹر میں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس کی مثالیں آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ میں خود 1989 میں ایک تصوف زدہ فرقے کا مرید بنا ہوا تھا۔ اس میں کئی لوگوں نے غلطیاں بھی بیان کیں لیکن میں نہیں مانا۔ اس کے بعد 1996-1997 میں جا کر کچھ شعور پیدا ہوا تو پھر میں اس گمراہی سے نکلا۔ اس کے بعد پھر میں ایک دوسرے فرقہ کی گمراہی میں چلا گیا اور پھر 2004 میں وہاں سے نکلا۔ ایسے ہی ہم اپنے دوستوں کے لیے بھی 15-20 سال کا انتظار کر لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں یہی ہوا تھا۔ جو لوگ مخلص تھے، وہ فوراً ایمان لے آئے تھے اور جو شدت پسند منکر تھے، انہیں بھی اللہ تعالی نے 609-622 تک مہلت دی اور تب جا کر انہیں موت کی سزا دی۔ پھر بھی منکرین باقی تھے، جن کو جنگ بدر میں حق کا ثبوت مل گیا تھا اور ایمان لے آئے تھے، ان میںسے جو مزید شدت پسند تھے ان کے کے موت کی سزا اگلے ایک دو سال تک چلی گئی اور باقی منکرین ایمان لے آئے تھے۔
اس کی مثال ابوسفیان رضی اللہ عنہ ہیں جو فتح مکہ 630 میں ایمان لائے تھے۔وہ اس سے پہلے دعوتِ دین کے منکرین میں تو شامل تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے عزتی نہیں کرتے تھے ، اس لیے کہ ان میں ایمان کی رمق موجود تھی ۔ انہوں نے دو مرتبہ مدینہ میں آ کر جنگیں بھی کیں لیکن بالآخر وہ ایمان لے آئے۔ اس سے مزید عمدہ مثال خالد بن ولید اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ہیں۔ جو جنگیں بھی کرتے رہے اور پھر ایمان لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق رومن ایمپائر کی فتح بھی انہوں نے کروائی۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com