سوال: میرے کچھ سوالات ہیں امید ہے کہ آپ رہنمائی فرمائیں گے۔ درج ذیل موضوعات پر وضاحت درکار ہے؟
۔۔۔۔۔۔ رفع الیدین
۔۔۔۔۔۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
۔۔۔۔۔۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما
۔۔۔۔۔۔ انجینیر محمد علی مرزا کے نظریات کیسے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ کیا مجھے دوسروں کو اچھا کہنے کے لیے سند کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو سند حاصل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ 10 سال یا 11؟
۔۔۔۔۔۔ کیا انٹر نیٹ کے ذریعے علم حاصل کرنا حرام ہے؟ ہمارے ایک قاری صاحب کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے اور تم گمراہ ہوجاؤ گی۔
۔۔۔۔۔۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ دین میں دماغ استعمال کرنا حرام ہے۔ اب وہ میرے بچوں کوتجوید کی ٹیوشن پڑھانے بھی نہیں آتے کیوں کہ میں ان کے فرقے کے کچھ نظریات سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میں دین سیکھنا چاہتی ہوں پہلے عربی زبان اور اس کے بعد باقی چیزیں بھی۔ کیا میں یہ کرسکتی ہوں؟ یا واقعی یہ حرام ہے؟
جواب: بہن آپ کے سوالات بہت دلچسپ ہیں اور ان موضوعات پر میں کتابیں لکھ چکا ہوں۔ مختصراً جواب عرض کرتا ہوں اور پوری ڈسکشن کے لیے آپ میری ان کتابوں کو آپ پڑھ سکتی ہیں۔ آپ کے جوابات بالترتیب نیچے حاضر ہیں۔
رفع الیدین
اس سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کے جو احکامات دئے ہیں، وہ سنت متواترہ سے پوری امت تک پہنچے ہیں۔ سنت متواترہ وہ ہے جس میں ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عمل کرتے رہے اور اگلی نسلوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ رفع یدین کی پہلی شکل وہی ہے جو نماز شروع کرتے ہوئے ہم کرتے ہیں۔ اس کے لیے آپ تمام احادیث پڑھ لیجیے تو معلوم ہو گا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز شروع کرتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے۔ اس میں پوری امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، انڈونیشیا سے لے کر کینیڈا تک تمام مسلمان اسی طرح پہلی رفع یدین پر عمل کر رہے ہیں۔
اب اختلاف اس رفع یدین پر ہے جو رکوع سے پہلے اور بعد میں کرنے کا ہے۔ اس میں یہ کنفرم ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی تبلیغ نہیں کی اور سب نے عمل بھی نہیں کیا ہے۔ ہاں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ رکوع سے پہلے اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رفع یدین کرنے دیکھا ہے۔ اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ کبھی ایسا کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے۔ اس سے یہ بھی کنفرم ہوتا ہے کہ رکوع والے رفع یدین میں یہ آپشن ہمارے لیے کر دی ہے، کر لیں تو بھی اچھا ہے اور نہ کریں تو تب بھی ٹھیک ہے۔ حقیقت میں یہ کہ اگر نماز کو مشین کی طرح کی چیز بنا دیں تو پھر اس میں مزا نہیں آتا ۔ اس لیے کبھی کر لیں اور کبھی نہ کریں تو پھر ذہن ایکٹو رہتا ہے۔
اہل علم میں اس موضوع پر اختلاف شدت پسندی کی حد تک ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ آپشن کے طور پر ہمیں اجازت دی گئی تھی، لوگوں نے اس پر شدت کرنی شروع کر دی کہ یہ دین کا حکم ہے کہ رفع یدین کرو اور کچھ کہتے ہیں کہ دین کا حکم ہے کہ رفع یدین نہ کرو۔ یہ آپس میں رویہ کی غلطی ہے کہ اس پر آپس میں بحثیں شروع کر بیٹھے ہیں ورنہ رکوع کے رفع یدین کی تمام احادیث پڑھ لیں تو بات صرف اتنی ہے کہ ہم کر سکتے ہیں یا نہ کر سکتے ہیں۔ دونوں میں ہمیں آپشن موجود ہے۔ اس کی تفصیل آپ میرے لیکچر اور کتاب میں پڑھ سکتی ہیں۔
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز
(Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ سیاست
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر
Methodology of Religious Thought & Law اصول الفقہ
قدیم زمانے میں اصول الفقہ کی پہلی کتاب ۔۔۔ الرسالہ از امام شافعی
نماز ۔۔۔ رفع الیدین، ہاتھ باندھنا، آمین کی اونچی آواز، ٹوپی، قطبین آرکٹک اور انٹارکٹک میں نماز اور سفر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنا
FQ65-Prayer Questions – Rafa Chadain, Amin in High Voice, Prayer in Travel & Living in Arctic & Antarctic
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما
یہ سب کچھ وہ کہانیاں ہیں جو سیاسی اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دراصل علی، معاویہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن یہ سب کچھ بغاوتی تحریک کے لوگوں نے جعلی روایات ایجاد کی ہیں۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ پروپیگنڈا کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھیوں کو موٹیویٹ کرنے کے لیے جھوٹ پروپیگنڈا کرتے ہیں جیسا کہ ہٹلر کے وزیر نے بیان کر دیا ہے۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ باغی تحریک کا مقصد یہ تھا کہ وہ حکومت پر قبضہ کر سکیں۔ ان کی تین پارٹیاں تھیں جنہوں نے سب نے اکٹھی ہو کر عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ اب مسئلہ انہیں یہ تھا کہ وہ حکومت پر قابض نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کا حل انہیں یہی نظر آیا کہ تین بڑے صحابہ علی، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا دیں اور پھر وہ ہمیں گورنر بنا دیں تاکہ ہم حکومت پر قبضہ کر سکیں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ تینوں پارٹیوں میں اختلاف تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ پر قابو پا لیں گے، دوسرا گروپ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ کو قابو میں کر لیں گے اور تیسرا زبیر رضی اللہ عنہ پر قابو کرنے کا اعلان کرتا تھا۔ آخر کار اس پر اتفاق ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ پر قابو پایا جائے۔ چنانچہ جب آپ کی حکومت بن گئی تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے نام پر جعلی خطوط لکھ کر اپنے ہاتھ سے جعلی سائن کر کے گورنرز کو بھیجے کہ تمہیں نکال دیا گیا ہےاور اب یہ گورنر بنیں گے اور یہ اس شخص کو گورنر بنانا چاہ رہے تھے جو اس باغی پارٹی کا حصہ تھا۔ یہ سب صحابہ نہیں تھے بلکہ اگلی نسل کے لڑکے تھے یا دیگر قبیلوں کے لڑکے تھے جو ملٹری کا حصہ رہ چکے تھے۔
کچھ گورنرز تو سادہ بزرگ تھے، اس لیے انہوں نے حکومت چھوڑ دی لیکن جومعاویہ رضی اللہ عنہ تھے، وہ پہلے ہی اس باغی تحریک کی انٹیلی جنس تفصیل سے کر چکے تھے اور اسے جانتے تھے۔ اس لیے ان کے جعلی خطوط کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اب باغی تحریک کا بڑا مرکز عراق بن چکا تھا۔ انہوں نے آخر یہی پلان کیا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں۔ اسی کے لیے وہ پارٹی نکلی تو علی رضی اللہ عنہ اس لیے ساتھ نکلے کہ وہ بغاوت ناکام رہے اور مسلمانوں میں لڑائی نہ ہو۔ چنانچہ وہ ایک مہینے تک اس بغاوت کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہوں نے آخر کار معاویہ رضی اللہ عنہ پر حملہ کر ہی دیا۔ اس جنگ میں عمار رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے جنہیں حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بتایا تھا کہ باغی انہیں شہید کریں گے۔ لیکن بعد میں ان باغیوں نے اس حدیث کو اس طرح استعمال کیا کہ عمار کو معاویہ رضی اللہ عنہما نے قتل کر دیا ہے حالانکہ یہ حقیقت نہیں تھی بلکہ جعلی پراپیگنڈا تھا۔
جب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں اتفاق ہو گیا تو باغی پارٹی کے ایک حصے نے عراق میں بغاوت کر دی اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا لیکن معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما شہید نہیں ہوئے۔ اب حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ان کے والد صاحب نے انہیں سمجھایا تھا کہ معاویہ ہی کو حکومت دے دیجیے گا کیونکہ وہی باغی پارٹی کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور باغی پارٹی قابو میں آ ہی گئی۔ اسی پارٹی نے پھر حسن رضی اللہ عنہ کو خفیہ طریقے سے شہید کر دیا۔ بہرحال 20 سال تک معاویہ رضی اللہ عنہ نے امن و سکون قائم رکھا، لیکن جب وہ فوت ہوئے تو اگلی نسل قابو نہیں کر سکی۔ اسی باغی پارٹی نے حسین رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا اور ان کے نام پر پراپیگنڈا کر کے مسلسل بغاوتیں کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب اور لیکچرز 19-23 میں دیکھ سکتی ہیں۔
سوال: انجینیر محمد علی مرزا کے نظریات کیسے ہیں؟
بہن! کسی بھی انسان پر میں تبصرہ نہیں کر سکتا ۔ ایک اصول بتا سکتا ہوں کہ جو شخص بھی دوسروں پر منفی تبصرہ کرتے ہیں، وہ قابل اعتماد نہیں ہوتے ہیں۔ جو لوگ علمی اختلاف ہو نے کے باوجود بھی دوسروں کی عزت کرتے ہیں تو وہ قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ آپ ان انجینئر صاحب اور دیگر اسکالرز کو سن لیجیے کہ ان کا اختلاف کا رویہ کیسا ہے؟ اسی پر آپ خود فیصلہ فرما سکتی ہیں۔ جو لوگ بھی دوسروں پر منفی تبصرے کرتے ہیں ان پر اعتماد نہ کریں۔ جو شخص بھی دوسروں سے عزت کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں، تو وہ قابل اعتماد ہیں۔ اس پر بھی اصول عرض کیا ہے، آپ اسے دیکھ لیجیے۔
کیا مجھے دوسروں کو اچھا کہنے کے لیے سند کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو سند حاصل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ 10 سال یا 11؟
بہن ! سرٹیفیکیٹ کس طرح کا چاہیے؟ اگر آفیشل سرٹیفیکیٹ کرنا ہے تو پھر آپ کو کسی بھی یونیورسٹی سے ہی لینا ہو گا۔ مثلاً اسلام آباد کی اسلامیہ یونیورسٹی یہ سرٹیفائی کرتی ہے۔ اگر آفیشل نہیں چاہیے تو آپ کے علمی کام کو میں خود سرٹیفیکیٹ کر سکتا ہوں لیکن یہ بتا دوں کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس کا طریقہ کار آپ کی خدمت میں میری کتاب اور لیکچر حاضر ہے۔
علوم الحدیث اردو لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف
سوال: کیا انٹر نیٹ کے ذریعے علم حاصل کرنا حرام ہے؟ ہمارے ایک قاری صاحب کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے اور تم گمراہ ہوجاؤ گی۔
آن لائن دینی تعلیم حاصل کرنے میں پوری امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر بھی قرآن اور احادیث ہی کی تعلیم دی جاتی ہے، جس سے دور دراز کے طلباء استفادہ کرتے ہیں۔باقی یہ چیز کو حرام اور ہر شخص کو گمراہ قرار دینے کے عمل کو وطیرہ بنا لینا مناسب عمل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھاکہ ہر انسان کی جان، مال اور آبرو کی وہی حیثیت ہے جس طرح بیت اللہ اور مکہ مکرمہ کی حرمت اور عزت ہو۔اگر کسی سے اختلاف بھی ہو، تو ہمیں چاہیے کہ ان کی جان، مال، آبرو پر کوئی تبصرہ نہ کریں۔ بس اتنا کہیں کہ اپنے ان بھائی یا بہن کی اس بات سے مجھے اختلاف ہے۔ یہ اختلاف بھی عزت کے ساتھ ہی بیان کرنا چاہیے۔
سوال: ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ دین میں دماغ استعمال کرنا حرام ہے۔ اب وہ میرے بچوں کوتجوید کی ٹیوشن پڑھانے بھی نہیں آتے کیوں کہ میں ان کے فرقے کے کچھ نظریات سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میں دین سیکھنا چاہتی ہوں پہلے عربی زبان اور اس کے بعد باقی چیزیں بھی۔ کیا میں یہ کرسکتی ہوں؟ یا واقعی یہ حرام ہے؟
دراصل جو شخص بھی فرقہ بناتا ہے تو وہ ایک باغی تحریک ہی پیدا کرتاہے اور اگر وہ زیادہ کامیاب ہو جائے تو پھر زیادہ پھیل جاتی ہے۔ میں نے ایک ہندو اسکالر سے پوچھا تھا کہ کیاآپ کے مذہب میں فرقے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ بہت سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک لیڈر پورے گروپ کا CEO بننا چاہتا ہے لیکن اسے نہیں بنایا جاتا تو پھر وہ ایک فرقہ بنا لیتا ہے۔ اس کی حقیقت یہی ہےکہ جس طرح کسی کمپنی کا بڑا ڈائریکٹر CEO فوت ہو جاتا ہے تو اس کی نسل میں بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ پھر مختلف کمپنیاں بنا دیتے ہیں۔ بزنس میں بھی ایسا ہی ہے اور مذہبی معاملات میں بھی ایسا ہی ہوتا آیاہے۔ اس پر بھی اس کتاب اور لیکچرز میں حاضر خدمت ہے آپ اس میں تفصیل جان سکتی ہیں۔
باقی رہا قاری صاحب کا معاملہ تو عرض ہے کہ میں کسی انسان پر تبصرہ نہیں کر سکتا ہوں۔ بس قرآن مجید میں آپ خود پڑھ لیجیے کہ دین کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالی نے دماغ ہی تو دیا ہے، غور و فکر، تدبر و تفکر آخر کس چیز کے ذریعے کرنا ہے؟ اسی پر آپ خود فیصلہ فرما لیجیے۔ عربی آپ ضرور پڑھ لیجیے اور قرآن مجید کو آپ خود دیکھ کر ترجمہ کر لیجیے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اہل علم نے جو ترجمہ کیا ہے، اس میں کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے بلکہ سب کے ہاں تصور ایک ہی ہے، ہاں ہر انسان الفاظ مختلف استعمال کرتے ہیں لیکن اس بات ایک ہی ہوتی ہے۔ عربی کی کتابیں آپ کےلئے حاضر خدمت ہیں۔
Quranic Arabic
https://drive.google.com/drive/folders/0B5mRw5mEUHv9dWItS3hPaXN0cXM
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com