تصوف اور ان گروہوں پر آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟

سوال: السلام وعلیکم و رحمتہ اللہ۔ امید ہے مزاج اللہ کے فضل و کرم سے ٹھیک ہوں گے۔ آج اخبار میں اک خبر نظر سے گزری کہ ایک مکتب نے یکساں تعلیمی نصاب یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس میں اس گروہ کے عقائد اور اہل بیت کی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ نصاب ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔

میں ممکن حد تک اپنے آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ان کے بارے حسن ظن سے کام لوں مگر ان لوگوں کے عقائد پڑھ کر اور اپنے ارد گرد ان لوگوں کے رسم و رواج دیکھ کر ذہن میں سوال آتا کہ صرف مسلمانوں جیسے نام رکھ کر اور اسلام کا نام لے کر  جیسا کہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں، کیاان کو مسلمان ہی سمجھنا چاہیے؟ آیا ان لوگوں کی دین اسلام کے بارے میں کھلی خلاف ورزیوں پر چپ رہنا صحیح طرز عمل ہے یا ان کےبارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہیے اور ان کے دین مخالف عقائد پرکھلی تنقید کرنی چاہیے؟

ثوبان انور فیصل آباد

جواب: دین کا اصل نام جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں دیا ہے، اس کا نام اسلام ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے  حضور سرنڈر کرنا۔ اس لیے ہمیں صرف اور صرف اپنا ٹائٹل اسلام ہی رکھنا چاہیے۔ جب لوگوں نے فرقے بنائے ہیں جو کہ انہی کی ایجاد ہے اور انہوں نے خودہی عقائد اور رسمیں بھی  ایجاد کی ہیں تاکہ ان کی نشانی لوگوں کے سامنے آئے۔ آپ ہر فرقے کے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے مخصوص عقائد اور اپنی رسموں کو ہی  دین قرار دیتے ہیں  اور اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے تقلید کا طریقہ بھی ایجاد کیا تاکہ ان کے پیروکار لوگ انہی کے نفسیاتی غلام بن کر رہیں اور ان کے فرقے سے باہر نہ ہو سکیں۔ 

یہی صورتحال تمام مذاہب کے فرقوں کی ہے تمام فرقوں  کا طریقہ یہی ہے۔ ایک بار میری ایک ہندو اسکالر سے گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں کتنے فرقے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب ایک شخص بڑا لیڈر بن جاتا ہے لیکن اسے اپنا CEO نہیں بنایا جاتا تو پھر وہ  اپنا  الگ فرقہ بنا لیتا ہے تاکہ وہ اس کا چیف ایگزیکٹو آفیسر بن سکے۔ حقیقت میں یہی مقصد ہوتا ہے اور ہمارے ہاں مسلمانوں کے ہاں بھی فرقے اسی وجہ سے بنتے ہیں اور لوگ کسی  لیڈر کو CEO بنا کر اس کی پیروی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تمام فرقوں سے الگ ہو کر آزادانہ طریقے سے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنت کی پیروی کریں۔ کوئی بھی اسکالر، خواہ وہ کسی بھی فرقے کے ہوں یا نہ ہوں، ان کی بات کو قرآن مجید کے ساتھ میچ کر کے دیکھیں، اگر میچ ہو تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ان سے الگ رہیں۔ 

سوال: میں جس کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں اسکے پچھواڑے ایک مسجد ہے جہاں کبھی ماتم، مجلس، نوحے اور کبھی غبارے لائیٹنگ لگا کے جشن منائے جا رہے ہوتے ہیں۔میں نے محرم کے دنوں میں بھی ان لوگوں کو نماز سے دور صرف سینہ پیٹتے اور ماتم کرتے دیکھا ہے۔ ان اعمال کی دینی حیثیت کیا ہے؟

جواب: یہ رسمیں بھی انہوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں تاکہ وہ اپنے پیروکاروں اور اگلی نسل کو اپنا غلام بنائے رکھیں۔ بچوں کو جب  بچپن سے یہ باقاعدہ  پریکٹیکل ڈرامہ کر کے دکھایا جاتا ہے تو پھر وہ پوری عمر تک اپنے لیڈرز کے غلام بھی بن کر رہتے ہیں۔ یہ صرف ان حضرات ہی تک نہیں، بلکہ دیگر تمام فرقوں کے ہاں بھی آپ چیک کریں گے کہ ان کے ہاں بھی ایسی رسمیں، عقائد اور ایکسرسائز  دیکھنےکوملیں گے جو برین وانشگ کا طریقہ کار ہے۔

وہ جو کچھ کرتے ہیں، اسے آپ قرآن مجید کے ساتھ میچ کر لیں تو نظر یہی آئے گا کہ قرآن مجید میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ یہ سب عقائد اور رسمیں دین کا حصہ ہی نہیں ہے بلکہ لوگوں نے خود ہی ایجاد کیے ہیں۔ 

سوال: اپنے جاننے والے قریبی احباب کو جید صحابہ کرام پہ انتہائی گھٹیا تنقید کرتے دیکھا (ان کے فیس بک  اکاؤنٹ پر)  میں نے کبھی ان کاجواب نہیں دیا بس ان فالو کر دیا۔ مزے کی بات یہ دیکھی  کہ  جب  میں نے اپنے وٹس ایپ پہ کبھی خلفائے راشدین، امہات المومنین و سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کےبارے میں سٹیٹس لگایا تو وہ احباب دور ہو گئے اور پھر ان میں کبھی خلوص نہیں دیکھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

جواب: اس کے لیے آپ ان حضرات کی تاریخ کو پڑھ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ حقیقت میں یہ ایک باغی تحریک تھی جو حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ابوبکر، عمر، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم ان کے کنٹرول میں نہیں آ سکے تو انہوں نے  ان کے خلاف منفی تبصرے کرنا شروع کیے اور آج تک جاری ہیں۔  علی ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم  بھی ان کے کنٹرول میں نہیں آئے بلکہ ساری عمر تک وہ ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ اُن  کی نسل در نسل میں جو علماء گزرے، وہ بھی ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے کئی سو سال بعد انہوں نے ان کے نام کو استعمال کیا اور انہوں نے اپنے عقائد اور رسموں کو ایجاد کیا۔  اور خاص طور پر امامت کا عقیدہ ایجاد ہوا۔ 

اس کے لیے آپ خودمطالعہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی تین صدیوں تک ان کے عقائد اور عمل میں  عام مسلمانوں سے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ لیکن چوتھی صدی ہجری میں جب انہیں حکومت مل گئی تو تب انہوں نے الگ عقائد اور رسمیں ایجاد ہوئی کیں۔  اسی حکومت کے دوران  انہیں موقع ملا کہ وہ بزرگوں کے مزارات بھی بنا سکیں ورنہ پہلے نہیں ہو سکا تھا۔ 

آپ خود ان علماء سے امامت کے عقیدے کے متعلق پوچھ لیجیے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قابل اعتماد حدیث سے امامت کا ثبوت دکھا دیجیے۔ وہ جو کچھ بھی ارشاد فرمائیں گے، پھر آپ اپنے گھر میں جا کر قرآن مجید میں  انہی آیات اور احادیث کو چیک کر لیجیے گا تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ جو حدیث ملی بھی تو  آپ ری چیک کر لیں گے  تو وہ جعلی حدیث نظر آئے گی۔ یہ صرف ان حضرات تک ہی نہیں بلکہ دیگر فرقوں کے ہاں بھی ان کا اصل سورس وہی جعلی احادیث ہی ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے کسی عقیدے کا ذکر بھی نہیں آتا۔ 

سوال:اس گروہ کے توحید پہ مبنی عقائد تو شاید ان کی کتابوں میں ہی لکھے ہوں گے مگر کبھی ان کو اللہ تبارک وتعالی کا نام لیتے نہیں دیکھا۔ مولا پاک کی قسم اٹھاتے، سیدنا علی سے مدد مانگتے، زریوں، اپنے درباروں کو جھک جھک کے چومتے اور تعظیم کرتے ہیں۔ یہ سب کیا معاملہ ہے؟

جواب: آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا ہے۔ دیگر فرقوں کے ہاں بھی بس آپ کسی اور بزرگ کے نام پر سب کچھ چومنا اور تعظیم کرنا وغیرہ نظر آئے گا۔ بلکہ دیگر مذاہب میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل حقیقت میں دین اسلام پر  ہی قائم تھے، پھر جب ان کے فرقے بنے تو انہوں نے اللہ تعالی کی بجائے موسیٰ، سلیمان،  عیسیٰ علیہم الصلوۃ والسلام اور سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کے نام پر عقیدت کا سلسلہ جاری کردیا جو کہ  آج تک جاری ہے۔ 

سوال: میں نے نوٹ کیا ہے کہ اس گروہ نے دین اسلام کے ہر رکن میں ترمیم کر رکھی ہے، آذان مختلف، نماز کی ادائیگی الگ، روزہ جلد سحری اور لیٹ افطاری، زکوۃ کا الگ طریقہ (بے شک ہم اسے فروعی اختلاف کا نام دیں مگر ہر کام میں واضح فرق نظر آتا کہ یہ ہم سےمختلف ہے)۔ یہ ضمنی باتیں ہیں اصل مقصد یہ پوچھنا ہے کہ جو فرقہ دین اسلام سے اتنا دور ہٹ جائے، چند مقدس ہستیوں کو اڈاپٹ کرکے شرک کا بازار گرم کر دے اور مُصِر ہوکہ میں اسلام پہ ہوں تو کیا یہ ہمارا امتحان نہیں کہ ہم اس کو ایک فرقہ مان کر چپ ہو جائیں؟ہمیں غلط کو غلط کہنا چاہیے یا فرقہ واریت سے اجتناب کا نقطہ نظر اختیار کر کے سائیڈ پر ہو جانا چاہیے۔ کیا کل ہم سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارے ارد گرد، اللہ کی ذات میں شرک کیا جاتا تھا، صحابہ کرام و امہات المومنین پہ کھلا تبرا ہوتا تھا اور تم حقیقت جاننے کے باوجود کیوں چپ تھے؟

جواب: آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ میں اس میں بس یہ مشورہ دوں گا کہ اختلاف جو کرنا ہے، وہ  کسی شخص یا گروپ  یا فرقے کے نام پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اس عقیدے کے نام پر تنقید کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی نام یا گروپ کے نام پر کریں گے تو لوگ پھر آپ پر حملے کریں گے اور فساد پیدا ہو گا۔ 

میں نے اسی وجہ سے کسی گروپ کے نام پر تنقید نہیں کی بلکہ تقابلی مطالعہ کی کتابوں میں ان کا نقطہ نظر اور ان کے دلائل پیش کر دیے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسروں کا نقطہ نظر اور دلائل پیش کر دیے ہیں تاکہ عام آدمی خود فیصلہ کر سکے کہ کس  موقع پر کس کی دلیل مضبوط ہے۔ اس طرح ہم لوگ کھلے ذہن میں آ جاتے ہیں اور ہم فرقوں سے بچ سکتے ہیں۔ 

سوال: قادیانیوں کو تو ہم نے کافر مان لیا کہ پاکستان کے قانون میں اسے کافر قرار دیا گیا۔اگر قانون میں یہ نہ ہوا ہوتا تو ہم آج بھی اس بات میں اختلاف کر رہے ہوتے کہ جو مسلمان کہلاتا ہے اس کو تم بھی مسلمان کہو۔ آیا کسی ریاست کا قانون حتمی حیثیت رکھتا یا قرآن و سنت پہ مبنی عقائد؟

جواب: قادیانی حضرات نے اپنے گروپ کا نام ہی الگ رکھ دیا ہے۔ اس کے لیے غلام احمد قادیانی صاحب کے بیٹے محمود صاحب نے اپنے پیروکاروں کو سمجھا دیا ہے کہ اب صرف وہی شخص مسلمان ہو سکتا ہے  جو ان کے والد کو نبی مانے اورجو نہ مانیں تو  پھر وہ سب کافر ہیں۔ جب انہوں نے اپنی اس تبلیغ کو بہت پھیلایا تو عام مسلمانوں میں ردعمل پیدا ہوا۔ اسی بنیاد پر پھر مسلمانوں نے ان کو قانونی طور پر الگ بھی کر دیا ۔ اگر وہ مسلمانوں کو کافر نہ کہتے تو پھر شایداتنی شدت پیدا نہ ہوتی۔ 

باقی رہے مرزاقادیانی صاحب کے عقائد جو انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھ رکھے ہیں، وہی عقائد آپ کو مسلمانوں کے صوفی علماء کے ہاں بھی ملیں گے۔ لیکن انہوں نے مسلمانوں کے متعلق منفی اورنفرت انگیزرویہ نہیں رکھا تو  مسلمانوں نے  بھی  ان کے متعلق کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔  قادیانی صاحب چونکہ مناظرہ کا شوق رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے منفی رویہ اختیار کیا تو تب مسلمانوں نے بھی  وہ جواب دے دیا جو آپ ارشاد فرما رہے ہیں۔ ان کا مطالعہ بھی آپ تقابلی مطالعہ میں کر سکتے ہیں۔  

سوال: اکثر اہل تصوف کے واقعات پڑھ کر ذرہ نہیں لگتا کہ یہ اسلام ہے۔ اپنے اپنے گھڑے ہوئےعقائد کی سب نے کوئی نہ کوئی توجیح بھی گھڑ رکھی ہے۔ آیا ان کی اس توجیح کو مان لینا چاہیے کہ تم بھی ٹھیک ہو؟ یا ان سب عقائد پر کھلی تنقید کرنی چاہیے؟ یہ سوچے بغیر کہ میرا مخاطب ناراض ہو جائے گا؟

جواب: آپ کے ارشادات میں جو  آپ نے فرمایا ہے، وہی حقیقت ہے۔ صوفی ازم  کے عقائد آپ کو بدھ مذہب، ہندو مذہب، عیسائی، یہودی اور مسلمان صوفیاء میں موجود پائیں گے۔ پھر اگر آپ ان کے عقائد کو قرآن مجید سے میچ کر نے کی کوشش کریں گے توآپ کو وہاں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ بلکہ صوفی ازم میں  رہبانیت کا  سب سے بڑا اصول موجود ہے، خود قرآن مجید  میں اللہ تعالی نے اس غلطی کو بتا دیا ہے، جسےآپ خود سورۃ الحدید آیت57 میں پڑھ سکتے ہیں۔ درج ذیل لنک سے آپ استفادہ کرسکتے ہیں۔

باقی ان عقائد پر تنقید تو ہمیں کرنی چاہیے۔ بس اس میں مشورہ یہی دینا چاہتا ہوں کہ کسی کی دم پر پاؤں نہ رکھیں کہ وہ پھر آپ پر اٹیک کریں گے۔ اس میں تنقید کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ کسی  شخص یا گروپ کا نام لئے بغیر صرف عقیدے  کی غلطی کو واضح کر دینا چاہیے۔ حقیقت میں صوفی ازم کے گروپوں میں بھی اصل اصول وہی تقلید اور نفسیاتی غلامی ہی ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ ان کے پیروکار ان کی  پیروی کرتے رہیں۔ یہی طریقہ تمام مذاہب اور تمام فرقوں کا رہا ہے۔ میں نے اسی پر تنقید کرتے ہوئے نفسیاتی غلامی کی کتاب لکھی ہے کہ کسی کا نام لئے بغیر تنقید کر دی ہے تاکہ لوگ اس غلامی سے بچ سکیں۔ اس کا لنک یہ ہے۔

سوال: جو چیزیں دین میں نئی داخل ہوئی ہیں خاص کر شرک پر مبنی عقائد اور آپ ان کے فالوورز کو شد ومد کے ساتھ ان کی تبلیغ و ترویج کرتے دیکھتے ہیں، تو کیا آپ کا کام ان کو روکنا بنتا ہے یا نہیں؟ چاہے آپ کو اس کی کتنی قیمت ہی دینی پڑے؟

جواب: ان کی تبلیغ اور ترویج کو ہم نہیں روک سکتے ۔ انہیں اللہ تعالی ہی روک سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے انہیں اس لیے چھوڑ دیا ہواہے تاکہ ہر انسان کے امتحان کا سلسلہ جاری رہے۔ ورنہ اگر اللہ تعالی چاہتا تو پھر تمام گمراہیوں کو ویسے ہی ختم کر دیتا۔ اللہ تعالیٰ نےسب کو اس لیے چھوڑ دیا ہوا ہے تاکہ لوگوں کا امتحان کیا جاسکے،تا کہ وہ  اپنی عقل سے سوچ کر خود فیصلہ کریں کہ  گمراہی کیا ہے اور اس سے ہم کیسے بچ سکیں۔ یہی ہمارا امتحان ہے جس پر ہمیں آخرت میں اجر ملنا ہے۔ ہم صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ غلطی اور گمراہی کو واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیں، باقی فیصلہ ہر انسان نے خود ہی کرنا ہے کہ وہ گمراہی پر رہیں یا اس سے بھاگ کر حق کو اپنا لیں۔ 

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”

تصوف اور ان گروہوں پر آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
Scroll to top