سوال: منافق کی صحیح ڈیفینیشن کیا ہے؟ میں ایک ٹیچر ہوں اور اسکول میں کافی لوگ کہتے ہیں کہ وہ تو منافق ہے اور کوئی کسی کو مشرکین کہہ دیتے ہیں۔ ان میں کیا فرق ہے؟
صدف منیر
جواب: منافق اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے اللہ تعالی کا پیغام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلامج کے ذریعے پہنچ جائے، وہ اقرار کر لے کہ ہاں، میں ایمان لاتا ہوں جبکہ حقیقت میں وہ ایمان نہیں کر رہا ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اس منافق کا جو بھی معاملہ ہے، اس کے اپنے ذہن میں ہے اور اسے یا تو وہ خود جانتا ہے یا پھر اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ اب ہمیں کسی انسان کے بارے میں کنفرم نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ سچ مچ مخلص مومن ہے یا منافق؟ اس کا فیصلہ اللہ تعالی ہی نے آخرت میں کر کے دکھا دینا ہے۔
ہمارے ہاں یہی بڑی غلطی ہے کہ لوگ دوسروں کو منافق قرار دے دیتے ہیں۔ یہ گناہ ہے جو ہم کر لیتے ہیں کہ دوسرے آدمی کو منافق، کافر یا کوئی اور منفی لفظ کہہ دیتے ہیں۔ ایسا گناہ ہم کر لیں تو پھر ہمیں ہی سزا ملے گی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اگلے کے دل اور دماغ کو کھول کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ رہا اس کا کوئی غلط عمل تو اس میں حسن ظن ہی رکھنا چاہیے کہ اس بھائی یا بہن کو غلط فہمی ہوئی ہو گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تو آسان تھا کہ خود اللہ تعالی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا کر کنفرم کر دیتا تھا کہ یہ شخص منافق ہے اور یہ مخلص مومن۔ آخر میں اللہ تعالی کے حکم سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منافقین کو مسجد سے نکال دیا تھا جو انہیں منافق ہونے کی علامت تھی۔
ایک قبیلے میں جنگ ہوئی تو ایک صحابی ایک شخص کو قتل کرنے لگے تو اس شخص نے ایمان کا اعلان کر دیا لیکن صحابی نے غلط فہمی سے اسے قتل کر دیا کہ یہ صرف جان چھڑانے کے لیے ایمان کا اعلان کر رہا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور آپ نے فرمایا کہ آپ نے اس شخص کے دل کو کھول کر دیکھا تھا؟ اگر ایسا نہیں کر سکتے تھے تو پھر آپ نے قتل کیوں کیا؟
اس سے ہمارے لیے کنفرم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے بعد ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم کسی انسان کو کافر یا منافق کہہ سکیں۔ اس کا فیصلہ آخرت میں اللہ تعالی ہی کر کے دکھا دے گا۔ ہمیں تو ابھی حسن ظن ہی رکھنا چاہیے کہ وہ امید ہے کہ وہ اچھا بھائی یا بہن ہو گا۔ رہی غلطی تو ہر انسان سے غلط فہمی میں ہو جاتی ہے۔
مشرکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو خدا سمجھ لیں اور پھر خود اعلان کر لیں کہ ہم کئی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں انہی لوگوں کو مشرکین کہا ہے جو خود اپنے آپ کو مشرکین کہتے ہیں اور اپنے شرک کو اپنا دین سمجھتے تھے۔ اس کے الٹ اہل کتاب بالخصوص عیسائی حضرات کو مشرک نہیں فرمایا ہے۔ حالانکہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی کا بیٹا تو مان گئے تھے اور انہوں نے مشرکانہ عمل کر دیا تھا لیکن خود کو وہ مشرک نہیں کہتے تھے اور خود کو توحید پر ایمان کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں انہیں اہل کتاب ہی بیان کیا ہے اور ان کے غلط عقائد اور غلط عمل کی غلطی کو واضح کر دیا ہے۔
سوال: ویلیو میں اور پرنسپلز میں کیا فرق ہے؟ سنا ہے کہ دنیا میں ہر کامیاب انسان کے پیشے اسک کی ویلیو یا پرنسپل ہوتے ہیں۔
جواب: ویلیو تو وہ اخلاقی اصول ہیں جس میں تمام انسان متفق ہیں۔ مثلاً ہر انسان جانتا ہے کہ چوری، ڈکیتی، کرپشن بری حرکت ہے اور کوئی انسان ڈوبنے لگے تو اسے بچانے کی کوشش کرنا ایک اچھا عمل ہے۔ یہ سب ویلیوز ہیں اور اس میں کسی ملک کے انسان میں کوئی اختلا ف نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور فرق ہو سکتا ہے کہ ایک علاقے کے لوگ کسی خاص ویلیو پر زیادہ فوکس کر دیتے ہیں اور دوسرے علاقے کے لوگ دوسری ویلیو پر زیادہ فوکس کر دیتے ہیں۔
پرنسپل وہ اصول ہوتے ہیں جس میں عمل کیسے کریں؟ مثلاً کرپشن کو روکنا ہے تو اس کے لیے کیا کریں؟ اس کے لیے کوئی قانون، یا ایسی پالیسی اور پروسیجرز تیار کر لیتے ہیں کہ اپنی کمپنی کے اندر ایسے عمل کریں گے کہ کوئی چوری اور کرپشن نہ ہو سکے۔
سوال: کس طرح انسان کامیاب ہو سکتا ہے؟ اپنی سٹرنتھز اور ویکنسز کی مثالیں دیجیے۔
جواب: بیٹی! ہم سب عام انسان ہیں اور ہم میں سے کوئی نبی نہیں ہے۔ ہر انسان میں کوئی مضبوط پہلو بھی ہوتا ہے اور کوئی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ میرے کیا مضبوط پہلو ہیں اور کونسے کمزور۔ لیکن یہ ساری انفارمیشن ہر انسان کی ذاتی ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ اپنا تجزیہ خود کر لیا کریں اور دوسروں سے شیئر نہ کیا کریں۔
ایک مثال شیئر کر دیتا ہوں۔ کھیلنے کی مثال یہ ہے کہ میرے اندر ایسی صلاحیت ہے کہ اسکواش گیم معقول طریقے سے کھیل لیتا ہوں۔ منفی پہلو یہ ہے کہ میں کرکٹ میں اچھا نہیں کھیل سکتا ہوں تو یہ کمزوری ہے۔ اسی طرح ایک انسان بزنس میں کامیاب ہوتا ہے اور دوسرا شخص بزنس کامیاب نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ صرف جاب ہی کر رہا ہوتا ہے۔ ان دونوں میں صلاحیتوں میں فرق سامنے آ جاتا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com