سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ امید ہے اللہ کریم کے بے پناہ فضل و کرم کے سائے میں ہوں گے اور یہ سایہ ہمیشہ قائم رہے۔ بھائی جڑانوالہ کا واقعہ آج کل ہر طرف موضوعِ بحث ہے، اسی بابت کچھ سوالات عرض ہیں۔
واقعہ وقوع پذیر ہونے کے بعد ہر طبقہ مذمت کر رہا۔ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات کی مذمت ہی کی جاتی رہی مگر یہ واقعات تسلسل سے ہو رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ مذمت ہمارے رویہ جات میں بھی تبدیلی کا باعث بنے اور یہ واقعات رک جائیں یہ کس کی ذمہ داری ہے اور ایسا کیوں کر ممکن ہے؟
شہزاد افسر مالک، چکوال
جواب: غیر مسلموں پر جو ظلم کیا گیا ہے، اس حوالے سے ان حضرات کو چاہیے کہ وہ پہلے قرآن مجید اور احادیث کا مطالعہ ضرور کر لیں، یہیں سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا گناہ کر رہے ہیں۔
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ، حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ۔
جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری /(معاہد)کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔
- نسائي، السنن،کتاب القسامة، باب تعظيم قتل المعاهد، 8: 24، رقم: 474
- ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب في الوفاء للمعاهد وحرمة ذمته، 3: 83، رقم: 2740
- احمد بن حنبل، المسند، 5: 34، 38، رقم: 20393، 20419
- دارمي، السنن، 2: 308، رقم: 2504
- حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 154، رقم: 2431
امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا۔
جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔
- بخاري، الصحيح، کتاب الجزية، باب إثم من قتل معاهدا بغير جرم، 3: 1155، رقم: 2995
- ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب من قتل معاهدا، 2: 894، رقم: 2484
- بزار، المسند، 4: 348، رقم: 2383
اب ان واقعات کو روکنے کا حل یہ ہے کہ
۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے دینی علماء لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ عمل گناہ ہے، چنانچہ اس سے بچیں کہ غیر مسلم کے خلاف اقدام بہت بڑا گناہ ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ عام لوگ ظلم کرنےسے رکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔ حکومتی اداروں پر ذمہ داری ہے کہ پھر بھی جو لوگ دہشت گردی کریں تو وہ انہیں جبراً روکیں اور قرآن مجید کے مطابق ان کوسزا ئیں دی جائیں۔ اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عرب ممالک جیسے سعودی عرب، امارات، کویت، قطر وغیرہ میں حکومتیں ایسا ہی کر رہی ہیں تو اس میں کیسا امن موجود ہے۔ میری بچیاں شام اور رات میں بھی گھر سے نکل کر دکان سے سامان خرید لیتی تھیں، اس میں ان کو کوئی خطرہ نہیں تھا کہ کوئی انہیں اغوا کر سکیں۔ حکومت پر اللہ تعالی نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ۔ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
ترجمہ: (انسان کی) یہی (سرکشی) ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسیٰ کو شریعت دی تو اُس میں) بنی اسرائیل پربھی اپنا یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ جبکہ جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی (کی کوشش) کر دی۔ (پھر یہی نہیں، اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ (اِن پر اتمام حجت کے لیے) ہمارے رسول اِن کے پاس نہایت واضح پروف لے کر آئے، لیکن اِس کے باوجود اِن میں سے بہت سے ہیں جو زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔(انہیں بتا دیا جائے کہ) جو اللہ تعالی اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور اِس طرح زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے،اُن کی سزا پھر (ان کے جرم کی نوعیت اور صورتحال کو دیکھ کر اس میں سے کوئی بھی ایک سزا) یہی ہے کہ:
۔۔۔۔۔۔ عبرت ناک طریقے سے قتل (مثلاً سنگسار) کیے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔ یا سولی پر چڑھائے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔ یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔ یا انہیں علاقہ بدر کردیا جائے(مثلاً جیل میں پھینک دیا جائے۔)
یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے۔(اے رسول!) مگر اُن کے لیے نہیں جو آپ کے قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کیجیے گااور) اچھی طرح سمجھ لیجیےکہ اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کےلیےہے۔ (سورۃ المائدہ 32, 33, 34)
سوال: یہ مذہبی معاملات اتنے منہ زور کیوں ہوتے ہیں کہ علماء تک صرف لفظی مذمتی بیان کی حد تک رہتے ہیں اور کوئی عالم عملی طور پہ روکنے کے لئے سامنے نہیں آتا؟ ایک عالم اگر یہ سمجھتا ہے کہ یہ درست نہیں ہوا، اور وہ ایک مضبوط جماعت یا مکتبہ فکر کو لیڈ کر رہا مگر ایسے واقعات کو حساس سمجھ کر بس لفظی مذمت کر رہا ہے تو کیا وہ غلط نہیں کہلائے گا؟ کوئی ایسا فورم بھی تو ہونا چاہئے جو ان علماء کو بھی ان کے صحیح غلط کی نشاندہی کر سکے، اور مجبور کر سکے کہ جس بات کو وہ درست سمجھتے ہیں اگر وہ ریاست کے لیے ناگزیر ہے تو اس پہ اپنے فالوورز سے عمل بھی کرائیں۔
جواب: اس کی وجہ جاننے کے لئے تو آپ کو تین سو سال کی تاریخ کے مطالعےکی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں کس طرح ایسی تحریکیں بنیں جو لوگوں کو موٹیویٹ کرتی رہیں کہ ان کے اثرات آج تک چلےآ رہے ہیں۔ انہیں تحریکوں کو سپر پاورز نے بھی استعمال کیا جس سے بہت سے ممالک میں دہشت گردی بھی جاری رہی۔ اس کو جاننے کے لیے آپ میری تاریخ کی آخری کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1qBg8D6KnsutiyG16lwLLEePpNqgd_Pbh
سوال: کیاایسا صرف اسلام میں ہی ہوتا ہے یا دیگر مذاہب میں بھی، ظاہر ہے انتہا پسندی دیگر مذاہب میں بھی ہے جیسا کہ ہندومت میں بھی ہم ایسے فسادات دیکھتے ہیں اور دونوں طرف یہ تفریق نہیں کہ صرف عام یا ان پڑھ لوگ اس میں شامل ہوں، انتہائی پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی ان واقعات میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مذہبی جنون اپنی حدیں کیوں کراس کر جاتا ہے؟ کیایہ ہجوم کی سائنس ہے کہ جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں؟ انفرادی گناہ کرتے وقت تو یہی لوگ مذہب کا خیال تک دل میں نہیں لاتے، تو ایسے واقعات صرف سن کر اتنا رد عمل کیوں دیتے ہیں؟
جواب: اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق اسلام سے نہیں ہے بلکہ یہ دین کے خلاف عمل ہو رہا ہے۔ یہی صورتحال دیگر مذاہب کے لوگوں کے ہاں ہے کہ وہ فساد فی الارض کرتے ہیں حالانکہ ان کے دین میں بھی یہ حرام عمل ہوتا ہے۔ انڈیا میں بھی انتہا پسند تحریکیں اسی طرح تین چار سو سال سے جاری ہیں۔ انہی کے اصلاح کرنے والوں نے تنقید بھی کی ہے۔ آپ خود گاندھی صاحب کی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور اسی تنقید کی پاداش میں ان کو بھی قتل کیا گیا تھا۔
https://en.wikipedia.org/wiki/The_Story_of_My_Experiments_with_Truth
سوال: ایک اور بات کہ قرآن مجید کی توہین تو یہاں ہوئی تھی اور اس وقت وہ چلی بھی پس منظر میں گئی، اب صرف جلاؤ کی مذمت والا فیز چل رہاہے۔ تو کیا اس سے اصل واقعہ اور مجرموں کا محاسبہ متاثر نہیں ہو رہا؟ اور اتنے واویلے کا اصل مقصد بھی یہی تو نہیں؟
جواب: سویڈن کے فسادی لوگوں نے توہین کی حرکت کی تاکہ مسلمانوں کو جذباتی کرکے لڑائیاں شروع کروائیں۔ اس میں پھر مسلمان انہی فسادیوں کے پروپیگنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ اس کے لیے یہی کافی تھا کہ مسلم ممالک کی حکومتیں سویڈن کی حکومت پر پریشر ڈالتی رہیں۔ جبکہ اس کے رد عمل میں اپنے ملک میں احتجاج اور فساد کرنا ظلم ہے، یہ سب قرآن و سنت کے خلاف عمل ہو رہا ہے۔
سوال: توہین کے واقعات مغرب میں بھی ہوتے ہیں اور مغربی طبقہ اس سب کو انسانی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کہہ کر ان سب اقدامات کا دفاع کرتا ہے۔ ہم مسلمان حدود و قیود کے قائل اور قرآن و سنت کے دائرہ میں رہ کر اظہار رائے کے حکم کے تابع ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا توہین کا واقعہ ہو تو ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟ بدلہ، احتجاج یا کچھ اور؟ اور کیا ان واقعات پر چپ رہنا گناہ ہوگا؟ کیاہمیں ہر صورت کسی نہ کسی صورت کچھ حصہ ڈالنا ہوگا؟
جواب: اس میں ہمارا عمل صرف اتنا ہونا چاہیے کہ فیس بک اور دیگر ٹولز کے ذریعے غیر مسلموں کو سمجھانا چاہیے کہ بدتمیزی کسی کے متعلق نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح معقول غیر مسلم حضرات بدتمیزی نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ سیاسی فسادی حضرات کا ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔ اس حوالے سے ہم اپنی حکومت کو مشورہ ہی دے سکتے ہیں کہ وہ مغربی ممالک کی حکومتوں پر پریشر ڈالیں تاکہ وہ اپنے فسادیوں کو روکیں۔ مسلم ممالک نے یہ پریشر سچ مچ ڈالا بھی ہے، اس سے زیادہ ہماری طاقت نہیں ہے۔جبکہ احتجاج اور فساد میں تو ہم پھر انہی مغربی فسادیوں کے مشن پر عمل کر رہے ہوتےہیں اور وہی اس کا فائدہ اٹھا رہےہوتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com