بچوں کی تعلیم کے لیے بینک سے قرض لے سکتے ہیں؟

سوال: السلام علیکم سر
سر کیسے ہیں آپ؟ زندگی کیسی چل رہی ہے ؟ گھر پر سب ٹھیک ہیں ؟

سر کافی دنوں سے آپ سے رابطہ نہیں ہو سکا۔۔ میرا مطالعہ کا سفر جاری ہے۔۔ میں آجکل فلاسفی کو پڑھ رہا ہوں تا کہ مجھے اسکی گہری سمجھ آ سکے اور میں بعد میں یہ چیز دیکھ سکوں کہ آج کے جدید دور میں کسطرح فلاسفی الحاد کو بنیادیں فراہم کرتی ہے اور مذہب کسطرح اسکا جواب دیتا ہے۔۔ انشاء اللہ فلاسفی اور جدید سائنسز کو سمجھ کر دوبارہ آپ کی بُکس کی طرف آ جاؤں گا۔۔

جواب: فلاسفی میں الحاد  کے دلائل کو نوٹ کر لیجیے۔ پھر ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ پرانا فلسفہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں ایسے الفاظ لکھے جاتے ہیں جس کا سر پاؤں ہی سمجھ نہیں آتا ہے۔ پرانے فلسفہ میں الہیات ہی بیکار فلسفہ ہے جس سے زیادہ صحیح دلائل کے ساتھ قرآن مجید میں  ہے۔ ہاں پرانے فلسفے میں اکنامکس، سوشل سائنسز وغیرہ کام کی چیز ہے لیکن اب وہ زیادہ اچھی شکل میں موڈرن فلاسفرز نے نئی ریسرچ کی ہے جس میں سائنسی طریقے اختیار کیے ہیں۔ 

سوال: سر میرا آج کا سوال سود سے  متعلق ہے ۔۔

سر ہمیں کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے لیے اتنی زیادہ رقم درکار ہے کہ کوئی انسان اِتنا قرض بھی نہیں دے سکتا۔۔ تو ہم نے بینک سے اس سلسلے ميں رجوع کیا ہے۔۔ میری ماما ٹیچر ہیں تو انھوں نے اپنی ایڈوانس سیلریز بینک سے نکلوانے کے لئے درخواست کی ہے تو بینک نے یہ کہا ہے کہ آپکو زیادہ سے زیادہ 11 لاکھ روپے مل سکتے ہیں اسٹیٹ بینک کے قوانین کے مطابق ۔۔ اور آپکو یہ رقم 4 سال کے عرصہ میں 40000 قسط ماہانہ کے حساب سے واپس کرنا ہو گی۔۔ اب اُس 40000 میں سے 26 فیصد مارک اپ ہے جو بینک ہر ماہ کاٹے گا۔ اور بینک والے کہتے ہیں۔

Diminishing or Balancing Method

باقی بچ جانے والی رقم آپکی قسط کی ادائیگی میں شمار ہو گی۔ مثال کے طور پر اگر 1000000 کا لون ہے اگر، تو 26000 روپے مارک اپ بنا اور یہ بینک کے پاس چلا گیا اور ٹوٹل قسط 40000 تھی تو 14000 ٹوٹل لون سے مائنس ہو گیا اور اب 984000 روپے باقی لون جو رہ گیا ہے اس پر اگلے مہینے 26 فیصد کے حساب سے مارک اپ لگے گا اور اسی طرح بینک اپنے پیسے کاٹ کر باقی رقم کل قرض سے مائنس کر دے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح 4 سال تک چلتا رہے گا۔

جواب: اس میں یہ دیکھ لیجیے کہ 26% کیا سال کا ہے یا پھر مہینوں کا ہے؟ اگر ہر مہینے میں 26% مارک اپ ہے تو وہ بہت زیادہ ظلم ہے۔ سال میں ایک بار 26% پاکستان میں چل رہا ہے کیونکہ سٹینڈرڈ سٹیٹ بینک، دیگر بینکوں کو جو قرض دیتا ہے تو وہ بنیاد ہوتی ہے۔ اسے پھر  ہر بینک اپنے کلائنٹس کو اس سے  معمولی سے زیادہ کچھ زیادہ مانگتے ہیں۔

 اس کا ریٹ آپ ابھی دیکھ سکتے ہیں۔  یہ سال پر 22% کے قریب ہے، جسے بینک عام لوگوں سے 25%  یا 26% لے رہے ہیں۔

https://www.sbp.org.pk/ecodata/kibor/2023/Oct/Kibor-05-Oct-23.pdf

سوال: اب سوال یہ ہے کہ اس میں اُنھوں نے انٹرسٹ کا کوئی فکس ریٹ نہیں بتایا جس پر ہمیں قرض واپس کرنا ہو گا۔۔ اب کیونکہ ڈامینیشنگ اینڈ بیلنس میتھڈ سے شرح تبدیل ہوتی رہے گی،اور اس میں کافی پیچیدہ عوامل کارفرما  ہونگے جو اس میں اضافے اور کمی کا سبب بن رہے ہونگے،  تو کیا یہ سود ہے جو ہم دے رہے ہیں ؟؟

جواب: یہ صرف سود کو حلال بنانے کا فراڈ ہے۔ روپے کی ویلیو جس طرح گرتی رہتی ہے، اس لیے وہ فکس سود نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ بینک کو نقصان ہی ہونا ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے غیر فکس کر کے  بظاہر بلا سود کہہ دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ مارک اپ کو  روزانہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ کسی دن معمولی سا کم ہوتا ہے لیکن اکثر زیادہ ہی ہوتے ہیں۔

اس کے لیے آپ سٹیٹ بینک کی  پورے سال میں ریٹ دیکھ لیجیے اور پھر اسے  ٹوٹل کر کے اتنے دن سے ڈیوائڈ کر لیجیے تو یہ پورے سال کا مارک اپ ہوتا ہے۔ 

https://www.sbp.org.pk/ecodata/kibor_index.asp

https://www.sbp.org.pk/ecodata/kibor/2023/Oct/Kibor-05-Oct-23.pdf

سوال: دوسرا سوال یہ ہے کہ جدید بینکنگ سسٹم میں جو سود کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے کیا یہ رسول اللہ کے دور میں جسے ربا کہا گیا ہے بعینہ وہی ہے؟؟  رسول اللہ کے دورمیں  تو اسطرح سنٹرائلز کرنسی سسٹم تو ہوتا نہیں تھا کہ پیپر کرنسی چھاپی جا رہی ہے ۔۔ اُس وقت تو کنزیوم ایبل چیزوں کا کا قرض ہوتا تھا جس پر سود یا رِبا کا مطالبہ کیا جاتا تھا اور اسے الله تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ آج کا بینکنگ سسٹم اُس سے کافی مختلف ہے تو کیا جو آجکی بینکنگ میں انٹرسٹ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے ، یہ وہی ہے جسے قران میں رِبا کہا گیا ہے اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے ؟؟

جواب: عہد رسالت میں پیپر کرنسی نہیں تھی بلکہ سونا چاندی کے سکے ہوتے تھے۔ اس لیے وہاں فکس سود چل جاتا تھا۔ جدید بینکنگ میں پیپر کرنسی کے ساتھ روزانہ ہی روپے کی ویلیو گرتی رہتی ہے۔ اس لیے پوری دنیا میں امریکی ڈالر  یا یورو کو آپس میں طے کر لیا گیا ہے اور اس کے مارک اپ کو دیکھیے تو اس میں معمولی سی تبدیلی ہوتی ہے جبکہ پاکستان یا انڈیا یا سری لنکا یا بنگلادیش روپے میں زمین کو آسمان کا فرق آتا ہے۔ 

اللہ تعالی نے جو ربا کو حرام قرار دیا ہے، تاکہ امیر آدمی قرض دے کر سود نہ کمائے اور غریب کا استحصال نہ کرے۔ بینکنگ سسٹم وہی ہے جو بینک کے مالکان غریب لوگوں کا استحصال ہی کرتے ہیں۔ بس اپنی نام کو خوبصورت بنانے کے لیے لفظ انٹرسٹ کو ہٹا کر مارک اپ کہہ دیتے ہیں تاکہ  بینک کے مالکان اپنے دل کو سنبھال لیں کہ ہم حلال کھا رہے ہیں، حرام نہیں کھا رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی انسان پیشاب کو جوس کہہ کر پیتا رہے۔ 

کنزیوم ایبل اشیا ہی میں استحصال زیادہ ہوتا ہے۔ ایک غریب آدمی نے اپنے بچوں کی تعلیم یا بیٹی کے لیے شادی کرنی ہے تو فرض کیجیے کہ وہ 1,000,000 لے لیتا ہے۔ یہ ایک ملین تو استعمال ہو کر فنا ہو جاتا ہے۔ اب اس غریب آدمی کو دوبارہ ایک ملین پیدا کرنا ہے تاکہ قرض واپس کرے۔ لیکن اس کے ساتھ مزید مارک اپ بھی پیدا کرنا ہے جسے آپ  چار سال تک 25% دینا پڑے تو اسے مزید ایک ملین پیدا کر کے ہی دینا پڑے گا اور اسے دو ملین واپس دینے ہوں گے۔

اس استحصال کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے تاکہ وہ قرض کا صرف وہی  ایک ملین ہی واپس لے اور مزید دوبارہ نہ لے۔ اگر وہ غریب آدمی پیدا نہ کر سکے تو اسے اپنا گھر یا  زمین یا کچھ اور ہی واپس کر کے جان چھڑانی پڑے گی۔ اسی استحصال کی تفصیل آپ میرے لیکچر میں سن چکے ہوں گے۔

مہاجنی سود اور کمرشل بینکوں میں سود کا فرق

ہاں کنزیوم ایبل  اشیاء کی بجائے استعمال شدہ اشیاء جیسے گھر، گاڑی وغیرہ قسطوں میں لیں تو جائز ہے۔ اب اس انسان کو قسطوں میں رقم دینی ہو گی اور اس میں اضافہ رینٹ ادا کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہر ماہ جتنی قسط ادا کر دے تو رینٹ بھی کم ہوتا رہتا ہے۔

سعودی عرب میں دیکھا ہے کہ ایک گاڑی 60,000 ریال کی لینی ہے تو قسطوں میں لیا تو اس  شخص نے پانچ سال میں  1000 ریال ہر ماہ تک قسط دینی ہے۔  گاڑی پہلے دن ہی مل گئی اور وہ فوراً استعمال کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس شخص نے پہلے ماہ 200 ریال رینٹ دینا ہے اور اگلی ماہ اسے 199 ریال رینٹ دینا ہے اور ہر ماہ رینٹ کم ہوتا جاتا ہے کیونکہ ہر انسٹالمنٹ پر وہ مالک بن جاتا ہے۔ پورے 60 ماہ تک اس نے رینٹ صرف 10,230 ریال دیا ہے اور  اصل قیمت 60,000 ریال بھی دے چکے ہیں تو اس میں کوئی استحصال ہوا ہے؟ 

ہر ماہ تک وہ شخص اتنے فیصد مالک بنتا جا رہا ہے اور  فرض کریں کہ ایک سال بعد ہی وہ رقم دینے کے قابل نہیں رہا تو اس گاڑی کو مارکیٹ میں بیچ کر اپنی باقی قسطیں ادا کر سکتا ہے۔  اس لیے اسے نہ تو گھر یا زمین کو دینا پڑا ہے ۔  مثلاً اسی گاڑی کو مارکیٹ میں بیچ کر 50,000 ریال میں رقم مل گئی۔ اب تک ایک سال میں قسطیں 12,000 ریال دے چکا ہے۔ اس لیے وہ مزید 48,000 ریال مزید دے کر فارغ ہو سکتا ہے اور اب  مستقبل میں رینٹ نہیں دینا پڑے گا بلکہ اس نے 2000 ریال بچت بھی کر لی ہے۔  اب آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ استحصال ہے یا نہیں؟

سوال: سر غامدی صاحب کے مطابق سود دینے والے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔۔ آپ اس بات کو کیسے دیکھتے ہیں کہ جو بندہ قرض لے کر اُسے سود سمیت واپس کر رہا ہے وہ بھی گنہگار ہے اور اُسکی بھی قیامت والے دِن گرفت ہو گی کیا؟؟

جواب: ان میں روایتی علماء اور جاوید صاحب کے دلائل کو دیکھ لیجیے جسے میں میری چھٹی کتاب میں اکٹھا کر دیا ہے۔

https://drive.google.com/drive/folders/0B5mRw5mEUHv9VEFnQV94aFpLR0k?resourcekey=0-w_-av85Ch8pFK6Ft_3p4Cg

 سب روایتی یا جدید علماء کا اتفاق ہے کہ سود لینے والا شخص تو استحصال کر رہا ہے اور قرآن مجید میں اس شخص  یا کمپنی یا بینک کو مجرم قرار دیا ہے۔ 

روایتی علماء یہ سمجھتے ہیں کہ مقروض انسان سود کھلا رہا ہے، اس لیے وہ بھی گناہگار ہے۔ جاوید صاحب  کا نقطہ نظر ہے کہ وہ سود کھلا نہیں رہا بلکہ وہ مجبور انسان ہے جس سے سود قانونی طور پر چھینا جا رہا ہے۔ اب دونوں کے دلائل کا مطالعہ کر لیجیے، میں اسے مختصراً عرض کر دیتا ہوں۔ 

دونوں کے نقطہ ہائے نظر میں ایک حدیث کے ترجمے کا فرق ہے۔ حدیث یہ ہے۔ 

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ رَأَيْتُ أَبِي اشْتَرَى عَبْدًا حَجَّامًا، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَثَمَنِ الدَّمِ، وَنَهَى عَنِ الْوَاشِمَةِ وَالْمَوْشُومَةِ، وَآكِلِ الرِّبَا، وَمُوكِلِهِ، وَلَعَنَ الْمُصَوِّرَ‏.‏

عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کو ایک سرجن کی سروس حاصل کی۔ میں نے یہ دیکھ کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتے کی قیمت لینے اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے ۔ آپ نے ٹیٹو بنانے  والی اور ٹیٹو گدوانے والی خواتین، سود لینے والے اور سود دلوانے  والے کو منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی۔ (بخاری، کتاب البیوع، 34:2086)

اسی طرح سود سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے تو اس میں ان تمام لوگوں پر مجرم قرار دیا ہے جو سود کے بزنس میں شامل ہوتے ہیں۔یہ زیادہ واضح حدیث ہے جس میں علماء میں اختلاف صرف ایک لفظ موکلہ کے ترجمے ہی میں فرق ہے ورنہ تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ سود ایک حرام بزنس ہے۔ یہی ڈسکشن دوسری حدیث میں بھی دیکھ لیجیے کہ اختلاف کا فرق وہی موکلہ کا ہے۔ 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‏.‏‏‏

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے سارشاد فرمایا: ” ہر اس شخص  پر اللہ تعالی کی لعنت ہے کہ وہ شخص جو سود لے لیتا ہے، وہ جو سود دلوا دیتا ہے، وہ جو اسے ریکارڈ کرتا ہے اور وہ جو اس پر گواہ دیتا ہے۔ وہ سب مل کر ہی برابر مجرم ہیں۔” (مسلم، کتاب المساقاۃ، 22: 1598)

اس طرح ہر اس انسان پر لعنت کر دی ہے کہ جو  انٹرسٹ کی ٹرانزیکشن میں شامل ہوتے ہیں۔  ایک شخص تو سود لے کر اپنی آمدنی کو انجوائے کرتا ہے۔ دوسرا شخص جو ایجنٹ ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو گھیر کر قرض دلوا کر ان سے سود وصول کر کے اپنے مالک یا آقا یا بینک کو پہنچا دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو اسے قانونی طور پر ریکارڈ کر دیتا ہے اور پھر چوتھا شخص جو قانونی طور پر گواہ بن جاتا ہے تاکہ عدالت میں ضرورت پڑے تو  وہ بھی گواہ دے کر سود کی مدد کرتا ہے۔ 

روایتی علماء یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ موکلہ یعنی سود دلوانے والا وہ شخص ہے جو قرض لے کر سود دے رہا ہے۔

جاوید صاحب کہتے ہیں کہ عربی زبان میں لفظ موکلہ قدیم عربی میں اس شخص کو کہا جاتا تھا جو وہ ایجنٹ ہے جو گھیر کر لوگوں کو قرض دلوا کر پھر سود وصول کر کے مالک کو کھلاتا ہے۔  رہا غریب آدمی جو مجبوراً قرض لے رہا ہے تو اس پر جبر کر دیا گیا ہے اور وہ مظلوم ہے۔ اس وجہ سے قرآن مجید میں سود لینے والے کو مجرم کہا گیا ہے لیکن قرض  لے کر سود دینے والے کو ایک بھی جملہ نہیں  ہے جس میں اسے مجرم کہا گیا ہو۔ 

اب آپ کا سوال اپنے اور والدہ صاحبہ کے بارے میں ہے کیونکہ بچوں کی ایجوکیشن یا گھر لینا بہت مجبوری ہے اور یہ محض کوئی عیاشی نہیں ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ وہ نیت کے ساتھ خوشی کے ساتھ بینک کو سود کھلانا چاہ رہے ہیں یا پھر معاشی طور پر مشکلات کی وجہ سے  مجبوراً قرض لینا پڑ رہا ہے؟ کبھی اتنی آمدنی ہوئی تو کبھی قرض نہ لیں گے  بلکہ اس موجودہ قرض سے جان چھڑا لیں گے۔ اب اپنی نیت کے لحاظ سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ 

سوال: سر میں آپکی بات سمجھ گیا ہوں۔۔
میری ماما بضد ہیں کہ میں نے یہ نہیں لینا یہ سود ہے اور یہ منع کیا گیا ہے قران پاک میں ۔۔

یہ میں ہی ہوں جو انھیں قائل کر رہا ہوں کہ یہ سود نہیں ہے بلکہ یہ ہر سال انفلیشن کے حساب سے ایڈجسٹ ہوتا رہتا ہے ۔۔ مثال کے طور پر آج ایک کار کی قیمت 10 لاکھ ہے تو اگر میں  کسی سے 10 لاکھ قرض لیتا ہوں تو سال بعد اسی کار کی قیمت 20 لاکھ ہو جاتی ہے اور میں اگلے سال اسے صرف 10 لاکھ روپے واپس کر رہا ہوں تو اِس میں تو جس نے قرض دیا ہے اُسکا نقصان کو گا کیونکہ کرنسی نوٹس کی اپنی تو کوئی حیثیت نہیں ہے، چیزیں یہ ڈیفائن کر رہی ہوتی ہیں کہ کرنسی نوٹس کی ویلیو کتنی ہے ۔۔ تو کیا جب بینکس انفلیشن ریٹس فکس کر کے کرنسی نوٹ کی ویلیو متعین کرتے ہیں تو کیا یہ بھی سود ہو گا؟

جواب: والدہ صاحبہ عمدہ احتیاط کر رہی ہیں کیونکہ سود تو ہے اور انہی کو نقصان پہنچنا ہی ہے۔ رہا قرض دینے والا شخص یا بینک تو وہ سود بھی وصول کر رہا ہے اور ساتھ کرنسی کی ویلیو کے ساتھ اضافہ بھی لے رہا ہے۔ آپ کار کی مثال دیکھ لیجیے کہ جو دس لاکھ سے بیس لاکھ ہو گیا ہے تو خریدنے والے کو سچ مچ کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ بینکر نے اب صرف بیس لاکھ ہی نہیں لیا بلکہ اس کے علاوہ بھی ٹوٹل جا کر پچیس تیس لاکھ لے لے گا۔

ہمارے ملک کے معاشی ماحول میں یہ ایشو موجود ہے کہ وہ عوام کو آمدنی اتنی ہی ملتی ہے جو تنخواہ ہے لیکن اخراجات زیادہ بڑھتے ہیں۔ تنخواہ اگر 50,000 سے بڑھ کر 60,000 ہو چکی ہے، تب بھی گھر کے اخراجات اس سے ڈبل ہو چکے ہیں کیونکہ روپے کی ویلیو گر جاتی ہے۔

بینک کرنسی کے نقصانات آپ ہی کو دے رہے ہیں اور ساتھ اپنا سود مزید لیتے ہیں۔ ابھی آپ پاکستان میں 26% سود دیکھ رہے ہیں، اسے آپ یورپ یا امریکہ میں دیکھیے تو وہ بہت کم ہی آتا ہے جیسے امریکہ میں 5.5% اور انگلینڈ میں 7% ہے۔ ہمارے ہاں وہی 7% سود سچ مچ لے بھی رہے ہیں اور باقی 19% کرنسی کے نقصانات کو بچا رہے ہیں اور اس نقصان کو آپ کے ہاتھوں پہنچا رہے ہیں۔ اس لیے مشورہ یہی دوں گا کہ تعلیم کے لیے آپ ایسا طریقہ ڈھونڈ لیں جس میں تعلیم کے اخراجات کم ہوں اور آپ کو نقصان کا بوجھ نہ لینا پڑے۔

آپ نے ڈیمنشن اینڈ بیلنس میتھڈ کا مطالعہ کر چکے ہوں گے۔ اگر چاہیں تو اس اس کی تفصیلات آپ اس لنک میں پڑھ سکتے ہیں۔

Diminishing and Balancing Method

https://en.wikipedia.org/wiki/Diminishing_returns#:~:text=The%20point%20of%20diminishing%20returns,inputs%20in%20the%20production%20process.

اس میں بینک اس بنیاد پر انٹرسٹ کو بڑھا دیتے ہیں تاکہ کرنسی کی ویلیو گرے تب بھی بینک کو نقصان نہ ہو۔ اب آپ کو ایجوکیشن کے لیے بینک نے 26% مارک اپ ریٹ دے دیا۔ اسے اگر آپ امریکہ یا یورپ کے انٹرسٹ ریٹ کو دیکھیے تو تقریباً 7% کے قریب ہے۔

اب پاکستانی بینک آپ کو 26% اس لیے دے رہے ہیں کہ وہی 7% حقیقتاً انٹرسٹ مل جائے جو ان کی آمدنی ہے۔ اس کے ساتھ مزید 19% اس لیے زیادہ لے رہے ہیں تاکہ کرنسی کے نقصانات سے بینک بچ جائیں اور یہی نقصان آپ کے اندر پھینک رہا ہے۔ اس میں سارا ملبہ آپ ہی پر لگا رہے ہیں تاکہ بینک کو نقصان نہ ہو بلکہ عام آدمی ہی کو نقصان پہنچ جائے۔

اب اس کا حل کیا ہے؟ ہمارے ہاں ذاتی طور پر اللہ تعالی سے دعا ہی کر سکتے ہیں کیونکہ گلوبل اکنامکس کو ہم کنٹرول نہیں کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کی ایسے طریقے سے مدد کر دیتا ہے کہ اس کے نقصانات بچ جائیں کیونکہ یہی زندگی میں ہم ایگزام روم میں موجود ہیں۔

اب اللہ تعالی کس طرح مدد کرتے ہیں تو ہر انسان کو مختلف طریقے سے مسائل حل کر دیتا ہے۔ ایک دوست کو مدد اس طرح ملی کہ ان صاحب کو معاشی مشکلات پیدا ہوئیں۔ اس وقت مجبوراً کریڈٹ کارڈ سے کئی رقمیں دینی پڑیں جس میں ایجوکیشن کی فیس وغیرہ بھی ادا کی۔ ان صاحب نے طریقہ یہی اختیار کیا تھا کہ کریڈٹ کارڈ میں سیلری کے دن ہی رقم دے دیتا، تاکہ بینک کو سود دینا ہی نہ پڑے۔ لیکن ایجوکیشن کی زیادہ فیس کی وجہ سے اس میں قرض بہت بڑھ گیا تھا اور اب وہ اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ سیلری سے کریڈٹ کارڈ کی رقم واپس کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں وہ پھر سود در سود کی مشکلات جاری رہیں۔

اللہ تعالی نے مدد یہی کی کہ کچھ ماہ کے لیے مشکلات کو رکھا تاکہ وہ صبر کا امتحان کر  سکیں۔ پھر ایک سال کے بعد ان صاحب کو کسی عرب ملک کی جاب مل گئی۔ اب وہ صاحب چند ماہ میں پہنچے اور پھر زیادہ سیلری ملی۔ اس سے بینکوں کو پوری رقم دے کر جان چھڑا لی۔

ابھی ہم نے روپے کی ویلیو گرنے کا مستقبل میں اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بینک 19% مارک اپ زیادہ لے رہے ہیں تاکہ کرنسی کے نقصان کو ہمارے اوپر ملبہ لگا رہے ہیں۔

https://gov.capital/forex/usd-pkr/

اس کی کیلکولیشن کو دیکھ لیجیے۔ فرض کیجیے کہ آج ہم نے بینک سے دس لاکھ روپے رقم لے لی اور ایک سال بعد ہم پوری رقم دے دیتے ہیں اور سال کا مارک اپ 26% ہے۔

Oct 2023: Loan PKR 1,000,000

Oct 2023: PKR value equal to US$: 1US$ = PKR 280

Oct 2023: Loan US$ = 1,000,000/280 = US$ 3,571

Oct 2024: Loan + Markup will pay = PKR 1,000,000 + Interest 260,000 = PKR 1,260,000

Oct 2024: PKR value equal to US$: 1US$ = PKR 338

Oct 2024: US$ value will pay = PKR 1,260,000 / 338 = US$ 3,728

Total Payment after 1 Year = Loan US$ 3,571 + Interest US$ 156 = US$ 3,728 which was interest get 4.4%.

اسے ہم ڈالر میں دیکھ لیتے ہیں۔ ابھی ڈالر کی ویلیو 280 روپے کے برابر ہے۔ اس طرح ہم نے 3,571 ڈالر قرض لیا ہے۔ سال بعد واپس دے رہے ہیں تو اس ڈالر پر فورکاسٹ یہ ہے کہ وہ 338 روپے ہو جائے گا۔ اب ہم جو 1,260,000روپے دے رہے ہیں تو اس میں ہمیں بینک کو 3,728 ڈالر دینے پڑے ہیں۔ اس میں بینک سے روپے کی ویلیو گرنے پر ہمیں نقصان بھی دے دیا اور مزید 156 ڈالر سود کما لیا ہے جو 4.4% انٹرسٹ ہے۔ ہم نے ڈالر کی فورکاسٹ زیادہ سمجھ لی ہے ورنہ بینک والوں نے کم سمجھا ہو گا اور انہوں نے 7% ہی انٹرسٹ لینے کا ٹارگٹ تھا۔

سوال: جی سر
دراصل ہمیں اللہ کا شکر ہے کہ مالی مشکلات نہیں ہے۔ ہم لوگوں نے حال ہی میں نیا گھر بنایا ہے۔۔ اس وجہ سے سیونگ کوئی نہیں بچی ہمارے پاس۔۔ ہم لوگ اپنے چھوٹے بھائی کو یورپ میں پڑھنے کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں جس کے لیے 20 لاکھ رقم درکار ہے اور وہ ایک دم ہمارے پاس نہیں ہے۔۔ اور 30 اکتوبر سے پہلے پہلے یہ رقم چاہیے ۔۔ لیکن بینک سے قرض لینے میں تو میں ہی راضی تھا۔۔ میری ماما بالکل بھی نہیں مان رہی اس بات پر۔۔ ہم لوگ بینک سے فارم وغیرہ بھی لے آئے ہیں، لیکن ماما بضد ہیں کہ ایسے نہیں کرنا ہم نے۔۔ جی سر! ایسا ہی ہے ۔۔ وہ چھوٹے بھائی تعلیم کے دوران جاب بھی کرے گا وہاں

جواب: الحمد للہ آپ کو مشکل نہیں ہے۔ بس یہ مجبوری ہے کہ بھائی کو یورپ میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ اس میں اگر بینک سے رقم لینی پڑی تو یہ ضرور چیک کر لیں کہ بھائی کی تعلیم وہاں ہو جائے گی تو کیا امید ہے کہ انہیں یورپ میں جاب بھی مل جائے گی؟ وہاں ایشو یہی ہے کہ یورپی کمپنیوں نے اپنی فیکٹری کو چین میں لے گئے ہیں، اس لیے یورپ میں جاب کم ہو گئی ہے۔

ہاں اگر بھائی وہاں تعلیم کے ساتھ کوئی چھوٹی جاب کرتے رہیں تو 10 سال بعد انہیں نیشنلیٹی مل جائے، تب انہیں فائدہ ہو گا کہ وہ پھر کسی عرب ملک میں جا کر اچھی آمدنی حاصل کریں گے۔

میرے اسپین کے کولیگ تھے، ان سے پوچھا کہ آپ کا ملک بعد عمدہ ہے تو پھر سعودی عرب میں جاب کیوں لے رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یورپ میں تنخواہ وہی ہے جو سعودی عرب میں ہے لیکن وہاں 40% ٹیکس لگ جاتا ہے اور باقی بچت نہیں رہتی ہے۔ سعودی عرب میں ٹیکس بہت کم ہے تو بچت ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو پوری طرح کامیاب فرمائے اور سودی قرض میں اللہ تعالی بچاتا رہے۔

اصل میں سود در سود کو جو معاملہ ہے وہ انسان کو بینک رپٹ کر دیتا ہے۔ جلدی سود دے دیا تو جان چھٹی ورنہ اگلے دن اس سود پر بھی سود لگے گا۔ جب ممکن نہ رہا تو بینک پھر اس گھر کو بیچ کر پوری رقم لے لیں گے۔ اس کے لیے بینک کو اتنی قانونی طاقت موجود ہے۔

مہاجن سود تو زیادہ سخت اور جبر سے لیتے تھے کہ وہ غریبوں کی زرعی زمین اور گھر پر قبضہ کر لیتے تھے۔ اس سے بھی سود پورا نہ بھی ہوتا تو ان کے بیٹے اور بیٹی کو غلام بنا لیتے تھے۔ موجودہ زمانے میں بینکوں کا جبر اس سے کچھ کم ہے کہ وہ آپ کی فیملی اور اولاد پر قبضہ نہیں کرتے ہیں۔

آپ فلسفہ میں الحاد کی مثال بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں بھی یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی، نبی اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن پریکٹیکل الحاد پر عمل یہ کرتے ہیں کہ سود کماتے رہتے ہیں۔ اس کو آپ عملی الحاد کہہ سکتے ہیں۔

مہاجن، جاگیردار اور بادشاہ بھی یہی لوگ تھے جو خود کو مسلمان کہتے۔ جو قرض پھنسا کر غریب سے غریب کر دیتے۔ پھر انہی کے بیٹوں بیٹیوں کو غلام بنا دیتے۔ بیٹوں کو بدمعاش بنا کر دہشت گرد بنا دیتے تاکہ ایک جاگیردار یا بادشاہ، دوسرے جاگیردار یا بادشاہ کی جنگ میں ان لڑکوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جنگ پر فتح کر لیتے۔ اسی طرح مقروض غریب آدمی کی بیٹیوں کو طوائف بنا کر مزید آمدنی حاصل کرتے رہتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس جبر کو ختم کر دیا تھا اور اس سے پہلے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی صحابہ کرام یشوع اور کالب رضی اللہ عنہما نے بھی اس جبر کو ختم کر دیا تھا۔ بعد میں کئی نسلوں میں دوبارہ وہی مہاجنی سود، جاگیرداری، مولویانہ اور صوفیانہ طریقے سے نفسیاتی غلامی نے لیڈرز کو شروع کیا تو پھر ہمارا زوال آ گیا تھا۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

جی سر ایسا ہی ہے۔ جی سر اس پر کافی ریسرچ کی ہے ہم نے۔ پھرہی فیصلہ لیا ہے۔ دعا کیجئے کہ کوئی راستہ نکل آئے اور ہمیں بینک سے قرض نا لینا پڑے۔۔

آمین

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
بچوں کی تعلیم کے لیے بینک سے قرض لے سکتے ہیں؟
Scroll to top