دینی امور پر اجرت لینا کیا جائز ہے یا حرام ہے؟

سوال: دینی امور پر اجرت لینا کیسا ہے؟ مثال کے طور پر نماز  پڑھانے، درس قرآن و حدیث دینے،خطبہ جمعہ دینے، جنازہ پڑھانے، بچوں کو قرآن پڑھانے وغیرہ جیسے دینی امور  کی تنخواہ یا وظیفہ  لینا کیسا ہے؟ قرآن و سنت کی اس پر کیا تعلیمات ہیں؟

جواب: کبھی نماز پڑھانے ، درس ، خطبہ، جنازہ، قرآن پڑھانے وغیرہ میں اجرت نہیں لینا چاہیے۔ نہ ہی ہم کبھی ایسا کر تےہیں۔ ہاں اگر استاد کو  فل ٹائم پرماننٹ اس کام کی پابندی لگائی جائے اور انہیں کوئی اور معاشی کام نہ کرنے کی پابندی ہو تو پھر انہیں تنخواہ ، وظیفہ ، اجرت  کچھ بھی دینی چاہیے۔ 

قرآن مجید میں یہ موضوع تو نہیں ہے لیکن سنت میں مثالیں ملتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاش کا معاملہ  یہ تھا کہ وہ بزنس کیا کرتے تھے، لیکن اللہ تعالی نے پابندی عائد فرما دی تو پھر سورۃ الانفال میں آپ کے لئے جنگوں  میں سے خمس کا حصہ مقررکر دیا گیا۔ شروع میں مشکلات ہوئیں لیکن جب ایک باغ کی آمدنی کو فکس کر لیا گیا تو معاملہ حل ہو گیا۔ 

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بزنس ہی کرتے تھے لیکن جب وہ خلیفہ بنے تو پھر سامان پکڑ کر مارکیٹ کی طرف جانے لگے۔ اس میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ آپ فل ٹائم  حکومت ہی چلائیں۔ انہوں نے فرمایا کہ معاش کا کیا کروں۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پارلیمنٹ نے طے کر دیا کہ آپ کو طے شدہ تنخواہ دی جائے گی۔ اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تنخواہ کم کروا دی کہ بس گھر کا خرچ ہی چلے۔

عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ان کی تنخواہ بھی جاری رہی اور انہوں نے  اساتذہ اور دیگر حکومتی ڈپارٹمنٹس بنائے تو بیوروکریٹس کی تنخواہوں کو بھی فکس کر دیا۔ اس کے بعد جب رومن اور پرشین ایمپائر کی زرخیز حکومتی زمینیں ملیں تو  عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی ذمہ داری غیر مسلموں کو دی  اور انہیں بتا دیاکہ فصلوں کی آمدنی کا 50% حصہ انہیں ملے گا اور 50% حصہ حکومت کو  جمع کروائیں گے۔ اس پر غیر مسلم حیران ہوئے کہ رومن اور پرشین ایمپائر بادشاہ انہیں صرف 5% آمدنی ہی دیتے تھے اور مسلمان اتنی کیسے دے رہے ہیں؟  عمر رضی اللہ عنہ  اس آمدنی سے تنخواہیں ادا کرتے اور پھر باقی رقم کو عوام تک پہنچا دیتے تھے۔عثمان رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو انہوں نے تنخواہ نہیں لی کیونکہ ان کی پرانے بزنس میں بچت کافی تھی۔  اس پر بہت عمدہ کتاب امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ نے “کتاب المال” لکھی ہے جسے آپ پڑھ سکتے ہیں جس میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لے کر  ہارون رشید تک کی حکومت کی فائنانس پر قانونی کتاب لکھی ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا ہے لیکن انگلش میں مل سکتا ہے۔ 

 سوال: کیا صحابہ ، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور تمام فقہاء کرام بھی آج کے علماء کی طرح اپنی دینی خدمات کا معاوضہ لیا کرتے تھے؟

جواب: اس کی مثالیں اوپر عرض کر دی ہیں۔  

سوال: قرآن کی  ان آیات    کا درست مفہوم کیا ہے؟ کیا دین کو ذریعہ معاش بنانے والے حضرات ان آیات کی خلاف ورزی نہیں کرتے؟

وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ  [البقرة: 41]

 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ۔  [البقرة: 174، 175]

 وَيَاقَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود: 29]

جواب: آپ پہلےان آیات کو اگلی اور پچھلی آیات کو اکٹھا کر کے ترجمہ پڑھ لیجیے جو نیچےمیں نے کر دیا ہے۔ پھر اس کا تجزیہ کر لیجیے۔

(قرآن آپ  کے  لیے یہی ہدایت لے کر آیاہے ، اِس لیے) اے بنی اسرائیل!  میری اُس نعمت کو یاد کر  لیجیے  جو میں نے آپ  پر کی تھی اور میرے ساتھ  معاہدے  کو پورا کر  لیجیے، میں آپ  کے  ساتھ  ایگریمنٹ  کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے خبردار رہیے  گا۔اور اِس (قرآن) پر ایمان لائیے  جو میں نے اُس تورات  کی کنفرمیشن  میں اتارا ہے جو آپ  کے  پاس ہے، اور سب سے پہلے آپ  ہی اِس کے منکر نہ بن جائیے  گا؛ تھوڑی قیمت کے عوض میری آیات نہ بیچ  دیجیے  گا،اور میرے ہی غضب سے بچے  رہیے  گا۔اور حق کو باطل سے نہ ملائیے گا، (یہ حق کو چھپانے کی کوشش ہے) اور جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کیجیے  گا۔ (سورۃ البقرۃ 40-42) 

یہ اہل کتاب تو جانتے تھے کہ یہی حق ہے، لیکن انہوں نے اِسے چھپا  لیا۔) حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اُس قانون کو چھپاتے ہیں جو اللہ تعالی نے (تورات  میں) اتارا ہے اور اُس کے بدلے میں (دنیا کی) بہت تھوڑی قیمت قبول کر لیتے ہیں،وہ اپنے پیٹ میں صرف جہنم کی آگ بھرتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالی  نہ اُن سے بات کرے گا، نہ انہیں پاکیزہ بنائے گا  اور اُن کے لیے وہاں ایک دردناک عذاب مقرر ہے۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب خریدا ہے۔ سو یہ کتنی  طاقت  رکھتے  ہیں کہ  جہنم  کو برداشت کر لینے کے معاملے میں؟ [البقرة: 174، 175]

نوح نے جواب دیا: ’’میری قوم! ذرا سوچیے کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں، پھر اُس نے مجھے خاص اپنی جناب سے رحمت بھی عطا فرمائی لیکن وہ آپ کو نظر نہیں آئی تو کیا ہم (زبردستی) اُس کو آپ پر زبردستی دے دیں، جب کہ آپ اُس سے بے زار ہیں؟‘‘’’میری قوم! میں اِس خدمت پر آپ سے کوئی مال نہیں مانگ رہا ہوں (کہ آپ ہر بات ماننے کے لیے مجبور ہو جائیں۔)میرا اجر تو اللہ تعالی کے ذمے ہے جبکہ (آپ اللہ تعالی کی رضا کے لیے) میں اُن لوگوں کو ہرگز نکال دینے والا نہیں ہوں جو ایمان لے آئے ہیں۔ وہ (اپنے اِسی ایمان کے ساتھ) اپنے رب سے ملنے والے ہیں۔ (اُن کی ویلیو و قیمت کا فیصلہ وہی رب کرے گا!) مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگ جہالت میں مبتلا ہیں۔میری قوم! اگر میں اُن (اہل ایمان غریب لوگوں) کو نکال دوں تو اللہ تعالی سے بچانے کے لیے کون میری مدد کرے گا؟ پھر کیا آپ غور نہیں فرما رہے؟ (سورۃ ھود 28-30)

سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کے رویے کا تجزیہ موجود ہے۔ قرآن مجید نازل ہوا تو اس میں شریعت کے وہی احکامات ہیں جو تورات میں موجود ہیں۔ بنی اسرائیل کے مذہبی لیڈرز نے آیات بیچ کر کرپشن شروع کی ہوئی تھی۔ اس کی مثال یہ تھی کہ تورات میں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کا آخری لیکچر موجود ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے آخری رسول آئیں گے۔ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ انہیں ان رسول پر ایمان لانا ہے اور ان کی خدمت کرنی ہے۔  اسے آپ دیکھ لیجیے۔

خداوند نے مجھ سے کہا: ’’وہ جو چاہتے ہیں، وہ ٹھیک ہے۔ میں تمہاری طرح کا ایک نبی ان کے لیے بھیج دوں گا وہ نبی تمہارے بھائیوں (یعنی بنی اسماعیل) کے درمیان میں کوئی ایک ہو گا۔ میں اسے وہ سب بتاؤں گا جو اسے کہنا ہو گا اور وہ لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا۔  (بائبل استثنا 18:18)

پھر بنی اسرائیل کے لیڈرز  قرآن مجید پر ایمان نہیں لائے بلکہ اپنی لیڈرشپ  کی بنیاد پر کرپشن کی تاکہ وہی مذہبی لیڈرز رہیں۔  پھر یہ مذہبی رہنما معاشی کرپشن بھی کرتے تھے۔ اس کی تفصیل خود انہوں نے بائبل کی مختلف کتابوں میں لکھ دی ہے۔ اس میں تنخواہ کا کوئی معاملہ نہیں تھا بلکہ کرپشن کی شکل تھی۔  تورات میں انہیں جو حکم دیا گیا تھا، اسے 10 کمانڈمنٹس کہتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے؛

۔۔۔۔۔۔ میرے حضور تم غیر معبودوں کو نہ ماننا۔

۔۔۔۔۔۔  تم کسی بھی چیز کی صورت کا خواہ وہ اوپر آسمانوں میں یا نیچے زمین پر یا پانی میں ہو، بت نہ بنانا۔

۔۔۔۔۔۔  تم خداوند اپنے خدا کا نام بری نیت سے نہ لینا کیونکہ جو اس کا نام بری نیت سے لے گا، خدا اسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا۔

۔۔۔۔۔۔ سبت (ہفتے) کے دن کو یاد سے پاک رکھنا۔ چھ دن تم محنت سے کام کرنا لیکن ساتواں دن خداوند تمہارے خدا کا سبت ہے۔ اس دن نہ تو تم کوئی کام کرنا اور نہ ہی تمہارا بیٹا یا بیٹی، نوکر یا نوکرانی، تمہارے چوپائے اور تمہارے پاس مقیم مسافر کوئی کام کریں۔

۔۔۔۔۔۔ اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا تاکہ تمہاری عمر اس ملک میں جو خداوند تمہارا خدا تمہیں دیتا ہے، دراز ہو۔

 ۔۔۔۔۔۔ تم (کسی کا) خون نہ کرنا۔

۔۔۔۔۔۔ تم زنا نہ کرنا۔

۔۔۔۔۔۔ تم چوری نہ کرنا۔

۔۔۔۔۔۔ تم اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔

 ۔۔۔۔۔۔ تم اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تم اپنے پڑوسی کی بیوی (کے حصول) کا لالچ نہ کرنا اور نہ ہی اس کے غلام یا کنیز کا، نہ اس کے بیل یا گدھے کا اور نہ ہی کسی اور چیز کا۔ (واضح رہے کہ یہاں پڑوسی کا لفظ جرم کی شناعت کو واضح کرنے کے لیے ورنہ  یہ جرائم کسی کے خلاف بھی جائز نہ تھے۔) بائبل۔ کتاب خروج 3:17-20

ئیوں (یعنی بنی اسماعیل) کے درمیان میں کوئی ایک ہو گا۔ میں اسے وہ سب بتاؤں گا جو اسے کہنا ہو گا اور وہ لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا۔  (بائبل استثنا 18:18)

پھر بنی اسرائیل کے لیڈرز  قرآن مجید پر ایمان نہیں لائے بلکہ اپنی لیڈرشپ  کی بنیاد پر کرپشن کی تاکہ وہی مذہبی لیڈرز رہیں۔  پھر یہ مذہبی رہنما معاشی کرپشن بھی کرتے تھے۔ اس کی تفصیل خود انہوں نے بائبل کی مختلف کتابوں میں لکھ دی ہے۔ اس میں تنخواہ کا کوئی معاملہ نہیں تھا بلکہ کرپشن کی شکل تھی۔  تورات میں انہیں جو حکم دیا گیا تھا، اسے 10 کمانڈمنٹس کہتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے؛

انہی ہدایات کے خلاف جو عمل وہ لوگ کرتے تھے، اسے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح کر دیا اور انہوں نے یروشلم میں پہاڑی پر کھڑے ہو کر ان کی  کرپشن کی تفصیل عنایت فرمائی، جس میں وہ بیوہ خواتین کے گھروں پر قبضہ بھی کر لیتے تھے۔ اسے آپ اس لنک میں پڑھ سکتے ہیں اور چھوٹا سا حصہ عرض کرتا ہوں۔ 

جب تک تمہاری زندگی شریعت کے عالموں اور فریسیوں سے بہتر نہ ہو گی تم آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گے۔ (اس میں یہود کے اہل علم کی بے عملیوں کی طرف اشارہ ہے۔)

۔۔۔۔۔ جو کوئی اپنے بھائی کو گالی دیتا ہے وہ عدالت عالیہ میں (خدا کے سامنے) جوابدہ ہو گا۔

۔۔۔۔۔ تم سن چکے ہو کہ زنا نہ کرنا، لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی کسی عورت پر بری نظر ڈالتا ہے وہ اپنے دل میں پہلے ہی اس کے ساتھ زنا کر چکا ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔ اپنے مذہبی فرائض محض لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کرو کیونکہ تمہارا آسمانی باپ اس پر تمہیں اجر نہ دے گا۔

۔۔۔۔۔ جب تم خیرات تو ڈھنڈورا پٹوا کر نہ دو۔ جب تم روزہ رکھو تو ریا کاروں کی طرح اپنا منہ اداس نہ بناؤ۔ ریاکاروں کی طرح  عبادت خانوں اور بازاروں کے موڑ پر کھڑے ہو کر دعا مت کرو۔ دعا میں رٹے رٹائے جملے نہ دوھراؤ۔

۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا خدا بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا۔

۔۔۔۔۔ اپنے لئے زمین پر مال و زر جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ لگ جاتا ہے اور چور نقب لگا کر چرا لیتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر خزانہ جمع کرو جہاں کیڑا اور زنگ نہیں لگتا اور نہ چور نقب لگا کر چراتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل ہو گا۔

۔۔۔۔۔ عیب جوئی نہ کرو تاکہ تمہاری عیب جوئی بھی نہ ہو۔

۔۔۔۔۔ پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں پاؤں سے روند کر پلٹیں اور تمہیں پھاڑ ڈالیں۔ (یعنی اچھی چیز کم ظرف لوگوں کو نہ دو ورنہ وہ تمہی کو نقصان پہنچائیں گے۔)

۔۔۔۔۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔ وہ تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں لیکن باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ تم ان کے پھلوں (تعلیمات) سے انہیں پہچان لو گے۔ (اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹے نبیوں اور مذہبی راہنماؤں کا فتنہ بنی اسرائیل میں بھی تھا۔)

اس میں آپ دیکھیے کہ ہمارے ہاں بھی مذہبی رہنما اور لیڈرز بھی ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں جس میں وہ قرآن اور تورات کے خلاف عمل کرتے ہیں۔  قرآن مجید میں کرپشن کے جرم کا ذکر ہے جس کا تنخواہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سرکاری تنخواہ تو حلال ہوتی ہے جس میں پوری قوم  متفق ہوتی ہے۔  لیکن  قرآن میں ان کےگناہ اور فراڈ کر کے کرپشن کرنے کا ذکر ہے۔ 

آپ نے اگلی آیت سورۃ ھود کی پیش فرمائی ہے اس میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام نے  اپنی قوم کو یہ ارشاد فرمایا تھا کہ  میں اللہ تعالی کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اس کے بدلے میں آپ سے کوئی رقم نہیں لے رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس میں بھی تنخواہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

سوال: بھائی آپ نے اوپر جواب میں فرمایا ہے کہ نبی ﷺ کو نبوت کے بعد معاش اختیار کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا، کیا یہ بات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے؟

جواب: قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داریوں کا مسلسل ذکر ہے اور اس کا تقاضا یہ بنتا ہے کہ وہ لازماً فل ٹائم ہی کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال آپ سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر میں دیکھ لیجیے۔ 

بسم الله الرحمن الرحيم، يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (4) إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (5) إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (6) إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (7) وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [المزمل: 1 - 8]

ترجمہ: اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے، رات کو کھڑے رہیے، مگر تھوڑا۔ آدھی رات یا اُس سے کچھ کم کر لیجیے یا اُس پر کچھ بڑھا دیجیے اور (اپنی اِس نماز میں) قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھ لیجیے۔ اِس لیے کہ عنقریب ایک بھاری بات کا بوجھ ہم آپ پر ڈال دیں گے۔ رات کا یہ اٹھنا، درحقیقت دل کی جمعیت اور بات کی درستی کے لیے بہت موزوں ہے۔اِس لیے کہ دن میں تو (اِس کام کی وجہ سے) آپ پر بہت مصروفیت رہے گی۔ (لہٰذا اِس وقت پڑھیے) اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیجیے اور (رات کی اِس تنہائی میں) سب سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیے۔ (سورۃ المزمل 1-8) 

يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ [المدثر: 1 - 7]

ترجمہ: اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے! اٹھیے اور انذار عام (عوام کے لیے دعوت) کے لیے کھڑے ہو جائیے۔اپنے رب ہی کی کبریائی کا اعلان کر دیجیے، اپنے دامن دل کو پاک رکھیے،  شرک کی غلاظت سے دور رہیے اور (دیکھیے)، اپنی سعی کو زیادہ خیال کرکے منقطع نہ کر بیٹھیے گا اور اپنے رب کے فیصلے کے انتظار میں ثابت قدم رہیے۔ (سورۃ المدثر) 

اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نبوت کی جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں، یہ فل ٹائم ہی ممکن ہیں۔ اس کی تفصیل ہمیں پھر سیرت نبوی میں نظر آتی ہے۔ اس کے لئے سیرت نبوی کی کوئی کتاب بھی پڑھ لیں تو یہی نظر آتا ہے کہ  آپ ﷺ کوٹائم ہی نہیں مل سکتا کہ نبوت کے علاوہ کچھ کر سکیں۔ 

تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر لیجیے کہ آپ پر یہی ذمہ داریاں لگی ہوں تو پھر  معاش کیلئے ٹائم کتنا بچ سکتا ہے۔ ہم لوگوں کو تو محض لیکچر یا کتاب لکھنا ہوتی ہے تو ٹائم آسان رہتا ہے کیونکہ ہم پہلے اپنی جاب یا بزنس کرتے ہیں اور فیملی کو ٹائم دیتے ہیں، پھر ٹائم جو بچ جائے تو  پھر دعوت، لیکچرزیا کتاب لکھنے کاکام کر سکتے ہیں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بزنس ایسا نہیں تھا کہ کوئی دکان کھولنی ہے بلکہ آپ کو کئی مہینوں کا سفر کر کے فلسطین، یمن، عمان اور دیگر علاقوں میں جانا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں سفر بھی اتنا ہوتا تھا کہ ایک دن میں مشکل سے زیادی سے زیادہ 50 کلومیٹر  ہی سفر ہو سکتا تھا۔ بندرگاہ سے بڑا سامان خریدتے اور بہت سے اونٹوں پر سامان فٹ کر کے سفر کرتے۔ پھر مختلف شہروں اور دیہات میں سیل کرنا ہوتا تھا۔ پھر جو سامان بھی بچ جاتا تو مکہ مکرمہ میں رکھتے اور ہر میلے میں سیل کرتے۔ اس میں ٹائم اتنا زیادہ لگ سکتا تھا کہ پھر نبوت کی ذمہ داریوں کا ٹائم نہیں بچ سکتا تھا۔ 

اب کسی وقت بھی اللہ تعالی قرآن مجید کی سورت نازل فرما دیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری تھی کہ آپ اس سورت کی تلاوت خود بھی کریں اور پھر کم از کم مکہ شہر کے تمام لوگوں تک سنا دیں۔ ظاہر ہے کہ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور منکرین کے سوال جواب کا سلسلہ بھی جاری ہوتا تھا۔ پورا دن اسی کام میں لگتا تھا۔ اب معلوم نہیں کہ کسی لمحے میں اگلی وحی نازل ہو جائے۔ اس لیے لمبا سفر کر کے بزنس کر ہی نہیں سکتے تھے۔ 

پہلے کئی سال تک مکہ مکرمہ والوں تک ہی قرآن مجید پہنچاتے رہے۔ پھر حج میں موقع ملتا تو اگلے قبائل میں بھی قرآن مجید سناتے رہے۔ مکہ مکرمہ کے آخری تین سال تک باہر کے قبائل کو قرآن مجید سنایا، یہی دعوت تھی جس کے نتیجے میں مدینہ منورہ والے لوگ ایمان لائے۔ 

اس دعوت کے نتیجے میں دیگر قبائل کے لوگ ایمان لاتے تو مکہ مکرمہ رہ جاتے اور پھر ارقم رضی اللہ عنہ کی حویلی میں اسکول بن گیا جہاں روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل ایمان کو پڑھاتے رہتے تھے۔ 

پھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیٹل ہوئے تو وہاں نبوت کے ساتھ حکومت بھی چلانی پڑی۔ اس میں جنگیں بھی ہوئیں۔ اس کے ساتھ مدینہ منورہ کے قریب مختلف قبائل تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچتے رہے اور قرآن مجید سناتے رہے۔ اب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ہی اسکول بن گیا اور روزانہ تعلیم و تربیت جاری رہتی جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت ہوتی۔ ساتھ صحابہ کرام کے ساتھ منافقین کے سوالات اور پراپیگنڈا کے جوابات اور ایکشن جاری رہے۔ ساتھ منکرین کے ایکشن کو بھی سنبھالنا پڑا۔ فیملی کو ٹائم بھی دینا پڑا اور ان کی تربیت بھی جاری رہی۔

اس میں آپ پورے 23 سال تک غور کر سکتے ہیں کہ کتنا ٹائم لگا ہو گا۔ اس لیے اللہ تعالی نے قولاً ثقیلا ًیعنی سخت بوجھ  شروع میں ہی سمجھا دیا تھا اور ساتھ تہجد بھی فرض کر دی تاکہ رات کا کچھ حصہ صرف عبادت پر قائم کریں۔  آخری دو سال میں دعوت کا رزلٹ  بھی سامنےآ گیا اور پورے عرب کے قبائل ایمان لائے۔ اب وہاں کے قافلے مدینہ منورہ آتے ، آپ ﷺ ان پر ٹائم لگا کر ان کی تربیت بھی کرتے۔  پھر کتنا ٹائم مل سکتا ہے جس میں کئی مہینوں کا بزنس بھی ہو سکے؟ 

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
دینی امور پر اجرت لینا کیا جائز ہے یا حرام ہے؟
Scroll to top