علماء کرام کے اختلاف کرتے ہوئے فتوؤں کی کیا حیثیت ہے اور اصل حقیقت کیا ہے؟

سوال: کچھ لوگ حنفی فقہ اور امام ابوحنیفہ پر تنقید کرتے ہیں اور اس کو اسلام سے متوازی فرقہ قرار دیتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ بڑے ائمہ کے فتوے بھی پیش کرتے ہیں، ان فتووں کی کیا حیثیت ہے اور اصل حقیقت کیا ہے؟

جواب: حنفی فقہ واقعی کوئی فرقہ نہیں بنا اور الحمد للہ کسی بھی فقہی اسکول آف تھاٹ میں فرقہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ ان میں فرق صرف اتنا ہی تھا کہ کسی اسکول کے اسٹوڈنٹس  ایک خاص طریقہ کار پر ریسرچ کرتے تھے۔  حنفی ریسرچرز نے وہی طریقہ کار اختیار کیا جسے ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد رحمتہ اللہ علیہم نے  اختیار کیا تھا۔ لیکن اس طریقہ کار میں یہ ضرور کرتے رہے کہ فتوی میں ان سب ائمہ سے اختلاف بھی کرتے رہے ہیں۔ قرآن و سنت میں جہاں دین کا حکم ہے، اس میں کسی اسکالر نے اختلا ف نہیں کیا ،لیکن اجتہاد میں اختلاف ضرور کرتے رہے ہیں۔ 

بس یہی دیکھ لیجیے کہ صرف اور صرف اپروچ میں اتفاق رائے رہا ہے لیکن اجتہاد میں سب کے ہاں اختلافات ملتے رہیں گے۔ اس کے لیے میں نے بہت سی مثالیں تقابلی مطالعہ کی کتابوں میں اکٹھی کر دی ہیں لیکن  مکمل لسٹ ممکن نہیں ہے۔ 

اس  لنک میں آپ بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں جس میں حنفی ریسرچرز نے ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے بھی اختلاف کیا ہے۔ اسی طرح مالکی، شافعی، حنبلی ریسرچرز نے بھی اپنے ائمہ سے اجتہاد میں اختلا ف کیا ہے۔ اتنی طویل لسٹ  پیش کرنا تو بہت مشکل ہے لیکن چند مثالیں عرض کر سکتا ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔ غلام رسول سعیدی صاحب کی شرح صحیح مسلم میں دیکھ لیجیے جس میں انہوں نے اپنے ائمہ جیسے ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور احمد رضا بریلوی صاحب سے بھی اختلاف کیا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔ احمد رضا بریلوی صاحب  کے دیوبندی حضرات کے خلاف کفر کے فتوی سے اختلاف پیر کرم شاہ صاحب نے کیا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔ تقی عثمانی صاحب کے معاشی فتاوی میں دیوبندی فقہاء کے ساتھ اختلافات کی مثالیں مل سکتی ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔ شاہ ولی اللہ صاحب بڑے حنفی ریسرچر تھے اور انہوں نے اجتہاد میں اختلاف کیا ہے۔ ان کے ارشاد کا ترجمہ عرض کر دیتا ہوں جس میں انہوں نے اپروچ کے اختلافات اور رویے کا تاریخی تجزیہ کیا ہے۔

    جہاں تک تو عام لوگوں کا تعلق ہے، تو وہ ان معاملات میں جن میں مسلمانوں یا مجتہدین کی اکثریت میں اتفاق رائے تھا، وہ سوائے صاحب شریعت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے کسی کی تقلید نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ وضو، غسل، نماز، زکوۃ وغیرہ کا طریقہ اپنے والدین یا شہر کے علماء سے سیکھ لیتے تھے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب انہیں کوئی مخصوص مسئلہ پیش آتا تو جو بھی (صاحب علم) مفتی انہیں ملتا، بغیر کسی مکتب فکر کی تخصیص کے، وہ اس سے سوال پوچھ لیا کرتے تھے۔

    جہاں تک خاص (علماء) کا تعلق ہے تو ان میں حدیث کے ماہرین بھی تھے۔ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کے آثار موجود تھے۔ انہیں حدیث سے استفادہ کرنے کے علاوہ، جن پر بعض فقہا بھی عمل کرتے ہوں، کسی اور سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان کے لئے اس حدیث یا صحابہ و تابعین کی اکثریت کی رائے پر عمل ترک کر دینے کے لئے کوئی عذر نہیں تھا اور نہ ہی اسے اچھا سمجھا جاتا تھا۔

    جب ان کے پاس کوئی ایسا معاملہ آتا جس کے بارے میں (موجود آراء پر) ان کا دل مطمئن نہ ہوتا ، جیسے آراء کے نقل کرنے میں تضاد پایا جاتا یا کسی ایک رائے کو ترجیح دینا واضح نہ ہوتا، تو وہ ماضی کے فقہاء کے نقطہ ہائے نظر کی طرف رجوع کرتے۔ اگر انہیں دو نقطہ ہائے نظر مل جاتے تو وہ ان میں سے صحیح ترین کو اختیار کر لیتے خواہ وہ مدینہ کے کسی عالم کا نقطہ نظر ہوتا یا کوفہ کے (یا کسی اور شہر کے)۔

    ان میں اہل تخریج بھی موجود تھے۔ جب انہیں کسی مسئلے میں واضح بات نہ ملتی تو وہ کسی مخصوص مکتب فکر کے دائرے میں ہی رہ کر اجتہاد کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگ کسی مخصوص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ فلاں شافعی ہے یا فلاں حنفی ہے۔ ان میں بعض حدیث کے ماہرین بھی کسی ایک مکتب فکر کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اکثر آراء اس مکتب فکر کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر امام نسائی اور امام بیہقی کو شافعی مکتب فکر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عدالت کے جج اور مفتی کے منصب پر جو فائز ہوتے تھے، ان کا مجتہد ہونا ضروری تھا اور مجتہد سے کم درجے کے کسی شخص کو فقیہ کا نام نہ دیا جاتا تھا۔

ان ادوار کے بعد کے لوگ ادھر ادھر جانے لگے۔ ان میں نئے نئے امور پیدا ہوئے۔ ان میں علم فقہ کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل غزالی کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا تو حکومت ان لوگوں کو مل گئی جو احکام اور فتاوی کے معاملے میں نااہل اور کمزور تھے۔

    یہ اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ (حکومت چلانے کے لئے) فقہاء سے مدد طلب کریں اور ہر طرح کی صورتحال میں انہیں اپنا ساتھی بنائیں۔ ایسے علماء موجود تھے جو پرانے طریق کار پر قائم تھے اور دین کی عزت برقرار رکھنے کو لازم سمجھتے تھے۔ جب انہیں (حکومتی معاملات میں) طلب کیا جاتا تو وہ ادھر ادھر ہو کر اس سے بچنے کی کوشش کرتے۔ (دنیا داری سے) اس اعراض کی وجہ سے اس دور کے علماء اور ائمہ کی عزت اور مرتبہ برقرار رہا۔

    بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو جاہ و منصب اور عزت حاصل کرنے کے لئے علم حاصل کرنے لگے۔ اس کے بعد فقہاء مطلوب کی بجائے طالب بنتے چلے گئے اور وہ لوگ جو بادشاہوں سے دور رہنے کی وجہ سے معزز تھے، اب ان کے گرد اکٹھا ہونے کی بجائے ذلت کا شکار ہو گئے سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے توفیق دی۔

    ان سے پہلے ایسے لوگ تھے جنہوں نے علم الکلام (عقائد کے فلسفے کا علم) میں تصانیف مرتب کیں۔ یہ لوگ اس علم سے متعلق مختلف آرا اکٹھا کرنے، ان کا حوالہ دینے، سوال جواب کرنے، اور بحث و مباحثے کا طریق کار طے کرنے میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں جو کام سینہ بہ سینہ ہو رہا تھا وہ منظر عام پر آنے لگا۔

    بادشاہوں نے اپنی تفریح کی خاطر فقہ خاص طور پر امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے مذہب سے متعلق بحث مباحثوں کو فنانس کر کے ان کی (حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی۔) لوگوں نے علم کلام اور دیگر علمی فنون کو چھوڑ دیا اور شافعی و حنفی مکاتب فکر کے اختلافی مسائل میں اسپیشلائز کرنے لگے۔ انہوں نے امام مالک، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل رحمھم اللہ وغیرہ کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ یہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ شریعت میں گہرے نکات کو تلاش کیا جائے، مختلف مکاتب فکر کی خامیوں کو بیان کیا جائے اور فتوی دینے کے علم کے اصولوں کو مرتب کیا جائے۔

    وہ لوگ اس معاملے میں نتائج اخذ کرنے اور تصنیف و تالیف میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس میں انہوں نے بہت سی اقسام کے بحث و مباحثے اور تصنیفات مرتب کیں اور آج تک یہ اسی کام میں مشغول ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی (کے دین کو نازل کرنے) کا مقصد یہی تھا جو کچھ بعد کے ادوار میں ہوتا رہا۔ بہرحال یہی ہوتا رہا۔

    ان میں سے بعض وہ لوگ تھے جو (اندھی) تقلید پر مطمئن ہو گئے۔ لاشعوری طور پر تقلید چیونٹی کی رفتار سے ان کے سینوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ اس کا سبب فقہاء کا ایک دوسرے سے مقابلہ اور آپس میں (غیر ضروری) بحث مباحثہ کرنا تھا۔ جب بھی کوئی ایک شخص اپنا نقطہ نظر بیان کرتا تو دوسرا اس کے بالکل الٹ فتوی جاری کر کے اس کی تردید کرنے لگ جاتا۔ اس پر ان کا مناظرہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ کوئی شخص قدیم علماء میں سے کسی کی واضح رائے سامنے نہ رکھ دیتا۔

    (تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک وجہ عدالتی ججوں کا ظلم و ستم بھی تھا۔ جب قاضیوں نے غیر منصفانہ فیصلے کرنا شروع کر دیے اور وہ (پیشہ ورانہ) دیانت داری چھوڑتے چلے گئے تو ان کے ان فیصلوں کو قبول نہ کیا جانے لگا جو اس سے پہلے کئے گئے عدالتی فیصلوں کے مطابق نہ تھے۔

    (تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک اور وجہ لوگوں کے لیڈروں کی جہالت بھی تھی۔ لوگ ان لوگوں سے فتوی طلب کرنے لگے جنہیں نہ تو حدیث کا علم تھا اور نہ ہی تخریج کے طریق کار (پہلے سے موجود قوانین کو نئی صورتحال پر منطبق کرنے کا طریق کار) کا علم تھا۔ یہ چیز آپ بعد کے دور کے لوگوں میں عام دیکھ سکتے ہیں۔ ابن ھمام وغیرہ نے اسی پر متنبہ کیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب غیر مجتہد لوگ، فقیہ کہلائے جانے لگے۔

    ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر فن میں (ضرورت سے زیادہ) گہرائی میں جانے کی کوشش کی۔ ان میں وہ بھی تھے جو اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے فنون کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ قدیم اور جدید تاریخ (سے متعلق روایات) جمع کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے عجیب و غریب روایات کی چھان بین شروع کر دی اگرچہ وہ محض جعلی روایت ہی کیوں نہ ہو۔

    ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اصول الفقہ میں (غیر ضروری) بحث و مباحثہ کرنے لگے۔ ہر ایک نے (اپنے اپنے مکتب فکر کے بڑے لوگوں کے نتائج فکر سے ان کے) طریق کار سے متعلق قواعد و ضوابط اخذ کرنا شروع کر دیے۔ یہ لوگ انہی معاملات کو اکٹھا کرنے، ان کی چھان بین کرنے، ان سے متعلق سوال و جواب تیار کرنے اور بے جا قسم بندی کلاسیفی کیشنز کرنے میں مشغول ہو گئے۔ کبھی اس پر طویل بحثیں کرتے اور کبھی مختصر۔

    ان میں سے وہ بھی تھے جنہوں نے ایسی خیالی صورت حال فرض کرنا شروع کیں جنہیں اگر کوئی عقل مند سوچے تو اسے ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ محسوس ہو گا۔ وہ تخریج کے ماہرین کے طرز بیان سے ایسے ایسے نکات اور عمومی نتائج  اخذ کرنے لگ گئے جنہیں سن کر نہ تو کسی عالم اور نہ ہی جاہل کا ذہن مطمئن ہو سکتا ہے۔۔۔۔

    اس کے بعد خالص تقلید کا دور شروع ہوا۔ اب لوگ نہ تو حق اور باطل میں فرق نہ کرنے لگے اور نہ ہی احکام اخذ کرنے اور ان پر بحث و مباحثہ کرنے میں کوئی تفریق کرنے لگے۔ اب فقیہ اس شخص کا نام ہو گیا جو زیادہ بولتا اور غیر محتاط طریقے سے بحث کرتا ہو، قدیم علماء کی مضبوط اور کمزور آراء میں کسی فرق کے بغیر یاد کرلے اور اسے پورے جوش و خروش کے ساتھ بیان کر دے۔ محدث اس شخص کو کہا جانے لگا جو صحیح و کمزور ہر طرح کی احادیث کو یاد کر لے اور انہیں بغیر سوچے سمجھے زور و شور سے اپنے جبڑوں کی طاقت سے بیان کرنے لگ جائے۔

    میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا ہی ہو گیا تھا۔ اللہ کے بندوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے ایسے لوگوں کی جہالت سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد میں کم ہوں لیکن زمین میں اللہ کی حجت ہوا کرتے ہیں۔

    اس کے بعد کے زمانوں میں فتنوں کی کثرت ہو گئی، اندھی تقلید عام ہو گئی اور لوگوں کے سینوں سے دیانت داری نکلتی چلی گئی۔ لوگوں کو اس بات پر پورا اطمینان ہو گیا کہ دین کے امور میں غور و خوض کو ترک کر دینا چاہیے۔ (گویا یہ کیفیت پیدا ہو گئی کہ) وہ کہنے لگے، ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اس طریقے پر پایا ہے اور ہم تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔ (قرآن، سورۃ زخرف 43:22)

    اس وقت سے لے کر آج تک ان چار مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) جن کے مسائل کو تحریر کر دیا گیا تھا، کے متعلق امت کا اتفاق رائے ہو گیا کہ جو جس مسلک کی چاہے، تقلید کرنا شروع کر دے۔ اس میں بھی کچھ ایسی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں۔ اس دور میں جب عزم و ارادے میں بہت کمزوری واقع ہو گئی تھی، لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے عادی ہو گئے تھے اور ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق ہی رائے پسند کرنے لگا (تو تقلید کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔)

    ابن حزم نے (اس معاملے میں اختلاف کرتے ہوئے) کہا کہ تقلید حرام ہے۔ کسی شخص کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرے۔۔۔۔جہاں تک ان فقہا (یعنی امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمھم اللہ) کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی تقلید سے منع کیا تھا۔ جس نے ان کی تقلید کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ اگر ان میں سے ہی کسی شخص کی تقلید کرنا ضروری ہوتا تو پھر سیدنا عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، یا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کیا اس بات کے زیادہ مستحق نہیں ہیں کہ ان ہی کی تقلید کر لی جائے؟ اگر تقلید جائز ہوتی تو کسی اور کی بجائے ان میں سے ایک کی تقلید کرنا زیادہ درست ہوتا۔ (ابن حزم کی بات ختم ہوئی۔)

    ان میں سے بعض عام لوگ ہوتے ہیں جو فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے غلطی نہیں ہو سکتی اور جو کچھ اس نے کہہ دیا وہ مطلقاً درست ہے۔ وہ کسی صورت اس عالم کی تقلید کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے اگرچہ اس کے خلاف واضح دلیل بھی موجود ہی کیوں نہ ہو۔ یہ معاملہ اسی طرح ہے جیسا کہ امام ترمذی نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ آیت سنی، انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے سوا شریک بنا لیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا، وہ ان علماء و مشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے تو یہ بھی اسے حلال قرار دے دیتے اور جب اسے حرام کہتے تو یہ بھی اسے حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔

    ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حنفی کسی شافعی عالم سے سوال پوچھ لے یا کوئی شافعی کسی حنفی عالم سے سوال پوچھ لے۔ وہ حنفی کے لئے شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو غلط سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات پہلی صدیوں کے اتفاق رائے اور صحابہ و تابعین کے نقطہ نظر کے خلاف ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 

(مصنف: شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ سے انتخاب و ترجمہ: محمد مبشر نذیر)

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
علماء کرام کے اختلاف کرتے ہوئے فتوؤں کی کیا حیثیت ہے اور اصل حقیقت کیا ہے؟
Scroll to top