السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ بھائی میرے کچھ سوالات ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، برائے مہربانی تسلی بخش جوابات عنایت فرمائیں۔ محمد وکیل
سوال: لائف انشورنس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: لائف انشورنس کے لیے آپ میری کتاب اور لیکچرز میں سن لیجیے، پھر فیصلہ کر لیجیے گا۔ اس کا لنک یہ ہے؛
انشورنس سے متعلق مذہبی علماء کا نقطہ ہائے نظر
خلاصہ یہ ہے کہ میری ریسرچ یہی ہے کہ لائف انشورنس جائز ہے۔ بس اس میں مسئلہ یہ چیک کرنے کا ہوتا ہے کہ وہ کمپنی ہمیں جو اضافی رقم دیں گی، وہ کہاں سے حاصل کرتی ہے تاکہ کنفرم ہو کہ وہ حلال آمدنی سے ہمیں حصہ دے گی یا حرام آمدنی سے؟ کئی انشورنس کمپنیاں پراپرٹی پلازہ بنا کر وہاں سے کرایہ لیتے ہیں جو بالکل حلال آمدنی ہے۔ کئی انشورنس کمپنیاں بینکوں میں جمع کر کے سود حاصل کرتے ہیں، جو حرام ہے۔ اس لیے انشورنس شروع کرنے سے پہلے اس کمپنی کی فائنانشل اسٹیٹمنٹس پڑھ لینی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو کہ وہ کہاں سے آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے لیے یہ مثال ایک EFU انشورنس کمپنی کی رپورٹ یہ ہے۔جب ٹائم ہوا تو آپ پڑھ لیجیے گا کہ وہ آمدنی کہاں سے حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے صفحہ 128 میں آمدنی ہے۔ اس میں نوٹس لکھے ہیں جس میں نوٹ 23 میں وضاحت ہے کہ آمدنی کہاں سے آ رہی ہے۔پھر آپ کو پوری رپورٹ میں ڈھونڈنا پڑے گا کہ کہاں کہاں سے آمدنی حاصل کر رہے ہیں جو انہوں نے 49 صفحے سے لے کر آگے تک لکھ رکھی ہے۔ جب آپ پڑھیں گے تو اس وقت میں سمجھاتا جاؤں گا۔ یہ ایک کمپنی کی کہانی ہے، باقی دوسری کمپنیوں کی کہانیاں اپنی اپنی ویب سائٹ میں موجود ہیں۔
https://efuinsurance.com/resource/financials/financial-reports/204655.pdf
فقہی ائمہ اور علماء کے متعلق سوالات
سوال: امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ، امام شافعی رضی اللہ عنہ، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اور امام مالک کو کن علوم پر دسترس حاصل تھی؟ وہ کونسی کتابیں تھیں جن کو پڑھ کر وہ عالم بنے تھے؟ اب وہ کتابیں کہاں ہیں؟ اگر وہ یہی کتابیں ہیں جو آج مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں تو آج کوئی ایسا عالم دین نظر کیوں نہیں آتا جس پر عالم اسلام کو فخر ہو؟
جواب:امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ بنیادی طور پر عراق میں بزنس کرتے تھے ،تو ان کےپاس زیادہ تر بزنس کا علم تھا۔ یہی ان کا علمی ذوق تھا، اس کےلیے وہ بڑے دینی علماء کے شاگرد بھی رہے اور سیکھتے رہے۔ بنیادی طور پر قرآن مجید اور سنت نبوی تو سب مسلمان جانتے تھے، اس کے ساتھ انہوں نے اجتہاد کرنے کا طریقہ کار اساتذہ سے حاصل کیا۔ پھر انہوں نے اپنا فوکس کیا کہ وہ علم الفقہ کی ریسرچ کریں۔ انہوں نے بڑے مذہبی سوالات کو اپنے شاگردوں ابویوسف، محمداور دیگر شاگردوں رحمتہ اللہ علیہم کو ریسرچ کے لئے دیا، انہوں نے بھی اس پر محنت کی۔ پھر ان سب علوم کو اکٹھا کر کے ان پرریسرچ کی۔ ابوحنیفہ صاحب کتاب نہیں لکھ سکے لیکن ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں جو موجود ہیں۔
ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ کو بادشاہ ہارون رشید نے چیف جسٹس بنا دیا۔ انہوں نے پھر حکومتی قانون سازی کر دی۔ پھر انہی کے شاگردوں کو حکومتی نوکریاں بھی دلوائیں اور اس طرح حنفی اسکول کی کتابیں عراق، ایران، ترکی، تاجکستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا میں پھیلیں اور ان کے اگلی نسلوں میں شاگرد علماء پیدا ہوتے رہے۔ تفصیل آپ میری دوسری کتاب میں پڑھ سکتے ہیں جس میں بڑے فقہاء کی سیرت موجود ہے۔ اس کا لنک یہ ہے؛
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ مدینہ منورہ کے تھے۔ انہوں نے بچپن میں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی، پھر تابعین علماء کےشاگرد رہے۔ پھر جب وہ عالم بنے تو انہوں نے مسجد نبوی میں پڑھانا شروع کیا۔ اس میں 50 سال تک پڑھاتے رہے۔ ان کے شاگرد زیادہ تر افریقہ اور اسپین کے لوگ بنے۔ وہ حج کرنے آتے تو کئی سالوں کے لیے مدینہ منورہ میں رہ جاتے۔ پھر وہ عالم بنتے اور اپنے ملک میں جا کر انہیں حکومت کی جاب مل جاتی۔ پھر اگلی نسلوں میں ان کے شاگرد افریقی ممالک اور اسپین میں پھیلے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فلسطین غزہ میں پیدا ہوئے تو ان کی والدہ انہیں مکہ مکرمہ میں لے آئیں تاکہ وہاں ان کی تربیت کریں۔ انہوں نے مکہ اور مدینہ کے علماء سے سیکھا اور وہ امام مالک کے شاگرد بنے۔ پھر انہوں نے عراق میں جا کر امام محمد اور امام ابویوسف سے بھی سیکھا۔ انہیں عراق میں حکومتی جاب مل گئی اور پھر کئی شہروں میں جج کے طور پر جاب کرتے رہے۔ آخر میں وہ تنگ ہو کر مصر چلے گئے اور وہاں پڑھاتے رہے۔ میں نے ان کی وفات کی جگہ کو قاہرہ میں دیکھا جہاں ان کی مسجد تھی۔ مصر کے گورنر نے امام شافعی سے فقہی طریقہ کار سے متعلق سوالات کیے جس کے انہوں نے جوابات دیے ۔ اس موضوع پر ان کی کتاب الرسالہ موجود ہے اور علم الفقہ کے طریقہ کار کی پہلی کتاب ہے۔ میں نے اسی کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جسے انڈیا کی شبلی اکیڈمی نے پبلش کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ عراق کے تھے۔ ان کا زیادہ تر فوکس احادیث نبوی کو اکٹھا کرنا تھا۔ انہوں نے بہت سے شہروں، دیہات میں جا کر احادیث اکٹھی کیں۔ اس لیے ان کی کتاب جو احادیث کی سب سے بڑی کتاب ہے جس میں 55,000 سے زیادہ احادیث ہیں۔ ابھی انہوں نے ریسرچ کرنی تھی کہ کونسی احادیث قابل اعتماد ہیں اور کونسی جعلی ہیں لیکن ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر ان کی کتاب پر دیگر محدثین جیسے امام بخاری، مسلم اور دیگر محدثین رحمتہ اللہ علیہم نے ریسرچ کی ہے۔ احادیث کی بنیاد پر سوال جواب پر علم الفقہ پر انہوں نے جو کام کیا، ان کے شاگردوں نے لکھا ہے۔
سوال: بارہا یہ سننے کو ملتا ہے کہ علماء انبیا کے وارث ہیں۔ کیا انبیاء کرام یہی کام سر انجام دیتے تھے جو آج کے علماء سرانجام دے رہے ہیں؟
جواب: یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ انہوں نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علوم کو سمجھا، عمل کیا اور اس کی تعلیم دیتے رہے اور پھر اس پر کتابیں لکھتے رہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور سنت نبوی پر بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہاں جہاں کسی سوال میں قرآن مجید اور سنت میں جواب نہیں ملا تو اجتہاد کیا۔ اس اجتہاد میں ہر انسان میں غلطی ہو سکتی ہے، اس لیے اختلافات آپ کو نظر آتے ہیں۔ یہ نارمل ہے۔ جیسے آپ نے انشورنس پر سوال کیا تو آپ کو مختلف علماء میں اختلاف نظر آئے گا کیونکہ ہر ایک کی ریسرچ میں علم کی کمی یا زیادتی کی بنیاد پر فرق محسوس ہو گا۔
سوال: وہ کون سے اعمال ہیں جو نبیوں نے ادا کیے مگر علماء نہیں کر رہے؟
جواب: علماء ہمارے جیسے انسان ہیں جن سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اور گناہ بھی ہو سکتا ہے۔ تمام علماء انسان ہیں اور وہ اپنی زندگی میں کوشش تو کرتے رہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے دین پر عمل کر سکیں۔ باقی انسان میں غلطی ہو سکتی ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علم کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں شامل کر دیا ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم ہم کو قابل اعتماد احادیث کے ذریعے پہنچ گیا ہے۔ اب ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم نے قرآن و حدیث کی اسٹڈیز کر کے اس پر عمل کرنا ہے۔ پھر آپ استاذ بن جائیں گے تو آپ نے اپنے شاگردوں کو پڑھانا ہے۔ اسی بنیاد پر آخرت میں ہمیں اجر ملے گا۔
کیا مولوی صاحبان پر بھی سوال اٹھایا جاسکتا ہے؟
سوال: معاشرے کے ہر فرد پرسوال اٹھایا جا سکتا ہے تو مولوی صاحبان پرکیوں نہیں؟ اگر اٹھایا جائے تو سوال کرنے پر اکثر مولانا صاحب اشتعال میں کیوں آ جاتے ہیں؟
جواب: آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ اسلام میں مولوی طبقہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل میں یہ ہندوؤں کے ہاں پنڈت کا طبقہ موجود ہے۔ ان میں جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ایک مولویوں کا طبقہ بنا دیا ۔ اسلام میں کوئی طبقہ نہیں تھا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے پوچھ لیتے اگر انہیں یاد نہ ہوتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کچھ صحابہ ایسے تھے کہ جو علمی ذوق رکھتے تھے اور وہ ماہر علماء بنے، جیسے سیدہ عائشہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم۔ پھر بھی ان کی الگ کوئی حیثیت نہیں تھی ، بلکہ اپنے بھائی بہن تھے، سوائے امہات المومنین کے کہ وہ ماں کی حیثیت سے تھیں۔ ہر صحابی کو جتنا معلوم ہوتا وہ قرآن مجید میں سے پڑھ لیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو یاد رکھتے تھے۔ ہاں اگر کوئی یونیک معاملہ ہوتا تو دوسرے صحابہ کرام سے پوچھ لیتے کہ آپ کو یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کا جواب کچھ دیا تھا؟ اس پر پھر دوسرے بھائیوں اور بہنوں سے پوچھ لیتے۔ اگر جواب مل جاتا تو ٹھیک ہے ورنہ پھر لاجیکل طریقے سے خود فیصلہ کر لیتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت جو نوجوان تھے، ان میں سب سے بڑے عالم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تھے ،وہ دو تین سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پڑھتے رہے تھے۔ پھر انہی کے شاگرد بڑے عالم بنے، جس میں بالخصوص سبعہ فقہاء یعنی مدینہ منورہ کے سات بڑے علماء مشہور ہوئے۔ تب بھی وہ کوئی پابند نہیں تھے بلکہ دیگر علماء سے بھی پوچھتے رہتے تھے۔ اب بھی یہی سلسلہ ہونا چاہیے۔ آپ کے ذہن میں سوال ہے تو کسی بھی عالم سے پوچھ لیں اور وہ اپنے نقطہ نظر کی دلیل بھی دیں۔ اگر ان کی بات پر مطمئن نہیں ہوئے تو دوسرے عالم سے پوچھ لیں اور ان کی دلیل بھی پوچھ لیں۔
مولویوں کے اس طبقے کو ٹھیک کرنے کے لیے میں نے یہ کاوش کی ہے کہ دور جدید میں دین سے متعلق اہم سوالات پر کتابیں لکھ دی ہیں تاکہ سب بھائی بہنوں کی خدمت ہو سکے۔ اس میں فائدہ یہ ہوا ہے کہ مدارس میں اردو میں ایک کتاب بھی نہیں ہے جس میں حدیث کی جانچ پڑتال کر سکیں۔ اس لیے مدارس میں یہ نہیں پڑھا جاتا ہے۔ اس میں یہ کاوش میں نے ہی اردو میں کی ہے۔ اسی طرح علم الفقہ کی پہلی کتاب الرسالہ کا ترجمہ کیا ہے اور تہذیبی تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں تو الحمد للہ کئی مدارس میں پڑھانا شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ اس میں کم از کم علمی ذوق رکھنے والے مولوی بھائی بھی ٹھیک ہوں گے انشاء اللہ۔
سوال: کیا ایک عام فرد اور عالم دین کی ذمےداری برابر ہے؟ اگر عالم اپنی ذمےداری میں غفلت برتے تو اسے تنبیہ کیوں نہیں کی جا سکتی؟
جواب: دین پر عمل کے لیے عام افراد اور عالم دین سب پر ایک ہی ذمہ داری ہے کہ وہ دین پر عمل کریں۔ ہاں عالم دین پر مزید ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کو پڑھاتے جائیں بالخصوص جو شاگرد ان کے ہوں۔ عام افراد کے سوالات کا جواب دیں۔ یہ وہی عمل ہے جس طرح سے سیدہ عائشہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم پڑھاتے تھے۔ وہ سب کو پڑھاتے تھے، ان کے شاگردوں میں تابعین کے بڑے علماء دین وہ بنے جو علمی ذوق رکھتے تھے۔ جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر تھے۔اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بڑے شاگرد وہی سات تابعین تھے۔ اور بہت سے مشہور تابعی شاگرد تھے۔ عربی میں شاگر د وں کو تلامذہ کہتے ہیں۔ آپ ان کے نام دیکھ سکتے ہیں اور کچھ بڑے علماء کی سیرت بھی موجود ہے۔
سوال: کیا ایک عالم دین کو ویسا ہی ہونا چاہیے جیسے آج کے عالم اور مولانا صاحب ہیں؟
جواب:یہ پرانا لفظ زیادہ اچھا نہیں لگتا کیوں یہ کہ بدنام ہو گیا ہے۔ اس کی بجائے انہیں چاہیے کہ وہ اسکالر کہہ لیں۔ ویسے ان کی مرضی ہے کہ جو مرضی لفظ استعمال کر لیں۔ اب مدارس میں کئی شاگرد PHD بھی کر لیتے ہیں تو وہ خود کو ڈاکٹر، پروفیسر وغیرہ بھی کہہ لیتے ہیں۔ اچھے علماء میں میرے کئی شاگرد PHD یا M.Phil کر کے حکومتی کالج میں پڑھا رہے ہیں اور تنخواہ سے گزارا کر رہے ہیں۔ الحمد للہ۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com