اسلامی علماء میں فرقہ واریت اور دنیا پرستی کیوں ہے؟

سوال: سر جی اس حدیث پے تبصرہ کر دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر وہ وقت آئے گا جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف رواج رہ جائے گا۔ انکی مسجدیں آباد ہونگی مگر ہدایت سے خالی۔ انکے علامہ آسمان کے نیچے بدترین خلق ہونگے۔ ان سے فتنہ نکلے گا اور انھیں میں لوٹ جائے گا۔

جواب: حدیث کو چیک کرنے کے لیے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ یہ کس کتاب اور اس کے کس باب میں موجود ہے؟ اس طرح ہم جانچ پڑتال کر سکتے ہیں کہ یہ حدیث قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ اس کتاب میں سارے راویوں کے نام ہوتے ہیں، ان کے ناموں سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ  یہ حدیث قابل اعتماد لوگوں سے ہم تک پہنچی ہے یا  وہ قابل اعتماد لوگ نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ متن میں قرآن  اور دیگر احادیث کے ساتھ چیک کیا جاتا ہے کہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے میچ ہو رہی ہے یا نہیں؟ 

آپ نے چونکہ اس کتاب کا نہیں بتایا ہے، اس لیے ان کے راویوں کا کچھ نہیں بتا سکتا ہوں۔ ہاں متن کے لحاظ سے یہ لاجیکل ہے اور تاریخ میں یہی رزلٹ آیا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہاں جب بغاوتیں، لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں اور لوگوں نے قرآن مجید کو سمجھنا چھوڑ دیا تو پھر ایسا ہی ہوا ہے۔ مسجدوں میں لوگ مناظرے کرتے رہے اور آپس میں لڑائیاں بھی کرتے ہوئے ایک فرقہ کی مسجد پر قبضہ دوسرے فرقہ والے کر رہے ہیں۔ 

یہ سلسلہ 1700 زمانے سے لے کر آج تک جاری ہے۔ اس کی مثال آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے قرآن مجید کا ترجمہ 1750 کے آس پاس کسی سال میں کیا تو بہت سے مولویوں نے انہیں کفر کا فتوی لگوا دیا کہ انہوں نے گستاخی کی ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سال سے پہلے بھی کافی عرصے سے لوگ قرآن مجید سمجھ نہیں رہے تھے۔ پھر مسلمانوں میں لوگوں نے ایک دوسرے کے کفر کے فتوے کرتے رہے اور اس طرح تقریباً تمام ہی مسلمان کافر ہو گئے  تو پھر مسلمان رہا کون؟  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث میں یہی فرمایا تھا کہ کوئی کسی کو کافر نہ کرے ورنہ کہنے والا بھی کافر ہو سکتا ہے۔  متن میں یہ لفظ لوگوں سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ہر وقت اور ہر جگہ میں سارے  لوگ ایسے ہوتے ہیں  بلکہ اس میں کافی لوگوں کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر وقت اور ہر جگہ پر اچھے لوگ ہوتے ہیں۔  ابھی بھی اچھے لوگ ہیں اور پچھلی تین صدیوں میں بھی اچھے لوگ گزرے ہیں۔ 

حدیث کا متن بالکل درست ہے اور حقیقتاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں ہی فتنہ شروع ہو گیا تھا جس میں کہنے والے مسلمان تھے لیکن وہ حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد پھر ہر  صدی میں یہ فتنہ جاری رہا ہے اور اسی وجہ سے ہم عروج سے گر کر زوال پر آ گئے ۔ یہ معاملہ صرف مسلمانوں ہی میں نہیں رہا بلکہ سب مذاہب میں ایسی ہی فرقہ واریت جاری رہی اور جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ موجودہ زمانے میں لوگ سیاست کے لیے اپنے ساتھیوں کو مذہب کا استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ ماٹی ویٹ ہو جائیں۔ 

سوال: یہ دنیا کے علم حاصل کرنے کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ لیکن بہت سے اسلامی علماء نے کہا کہ اس دنیا کے علم کو چھوڑ کر آخرت پر توجہ دیں۔

جواب: یہی ان بھائیوں کی غلط فہمی ہے۔ وہ یہی دیکھ لیتے کہ دنیاوی علوم سے  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غیر مسلموں سے سیکھا۔ مثلاً معاویہ رضی اللہ عنہ نے بغاوتوں جو اس بنیاد پر قابو کیا کہ وہ روزانہ  شام میں کئی گھنٹوں کے لیے آفس میں بیٹھتے اور غیر مسلم لوگوں کو ملازم رکھا تھا جو پہلے روم اور ایران کے بادشاہوں کے ملازم تھے۔ اب  انہوں نے عربی سیکھ لی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کہ  فلاں علاقے میں بغاوت ہوئی تو بادشاہ نے کیا کیا؟ اس میں پھر غیر مسلم ملازم عربی میں اپنے بادشاہوں کے ڈاکومنٹس میں عربی میں ترجمہ کرتے ہوئے سناتے۔ اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوتا کہ کس عمل میں بادشاہ کو نقصان ہوا اور کس میں حکومت کو فائدہ ہوا۔ 

اسی طرح کئی غیر مسلم ڈاکٹرز تھے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا علاج کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایران کے بڑے ماہر سرجن ہوتے تھے اور انہی سے مسلمانوں نے سرجری  اور میڈیسنز سیکھیں۔ اسی طرح  انجینئرز سے طریقے سیکھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے سمندری جہاز  غیر مسلموں سے بنوائے او رمسلمانوں نے سیکھ کر آگے جہاز بنانے لگے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے حکومتی کھیت غیر مسلم حضرات کو دیے تاکہ وہ کام کریں  کیونکہ عربوں کو کھیتوں کا کام نہیں آتا تھا۔ اس میں آپ میری تاریخی کتابوں میں پڑھیں گے انشاء اللہ۔ 

سوال: 168-167 آیت میں کہا گیا کہ انسانو اپنے انہی لیڈرز کے پیدا کیے ہوے توہمات کے تحت اپ نے جو حلال و حرام طے کیے ہوے ہیں انکی کوئ حقیقت نہیں۔ اسلیے زمین کی چیزوں میں سے جو حلال و طیب ہیں انھیں کھائیے۔ اس میں انکی توہمات کیا تھیں اور اس کا آج کے معاشرے میں کیا اطلاق ہے؟

جواب: یہ بہت ہی دلچسپ سوال ہے اور اس کے جواب کے لیے ایک کتاب لکھنی پڑے گی۔ میں کر چکا ہوں اور اس لنک پر کتاب  اور لیکچرز حاضر خدمت ہیں جس کا نام ہے مذہبی برین واشنگ اور ذہنی نفسیاتی غلامی۔ اس کی سمری عرض ابھی کر دیتا ہوں۔ 

لیڈرز نے توہم پرستی کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ  خدا کا انسان سے ڈائرکٹ تعلق بن سکتا ہے۔ اس کے لیے تمہیں پیر کے مرید بننا ہو گا۔ پھر پیر ، اللہ تعالی کا دوست ولی ہے، وہ تمہیں اللہ تعالی سے ملا دے گا۔ 

اب جو مرید بن جاتے تو وہ اپنےپیر کی خدمت کرتے رہتے۔ تعلیم کے ساتھ وہ نفسیاتی عمل کر کے انہیں اپنا ملازم بلکہ غلام بنا دیتے اور انہیں استعمال کرتے۔  انہوں نے ایسے عجیب و غریب طریقے ایجاد کیے جس کی تفصیل آپ تصوف کی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ 

https://drive.google.com/drive/u/0/folders/12ODWBkAskGyloH1KMaU1b_1uPuhM9fW0

توہم پرستی کے لیے مثال ہے کہ اپنے مرشد کے لیے مزار بنا دیتے اور وہ کہتے کہ اس مزار میں جو مرشد ہیں، وہ تمہیں اللہ تعالی سے تعلق قائم کرتے ہیں اور  پھر وہ مرید اس مزار یا قبر کی پوجا کرتے رہتے۔ 

سوال: دین فروشی سے کیا مراد ہے؟ کیا ریٹ فکس کرکے تقریر کرنا بھی دین فروشی کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر یہ دین فروشی نہیں ہے تو قران و حدیث میں جس دین فروشی کا زکر ہے، وہ کیسے دین بیچیں گے؟

دین فروشی وہی ہے جیسے ہندوؤں کے ہاں پنڈت ہر چیز پر  رقم لیتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جو علماء تھے، ان میں سے بعض علماء نے دین فروشی یہ کی کہ جعلی اور جھوٹ فتوے دے کر رقم لیتے۔ مثلاً  تورات میں پابندی نہ ہوتی تو اگلوں کو  شریعت کی پابندی ایجاد کر کے ان سے رقم لے کر جان چھڑوا دیتے۔  کل کی یہ مثال ہے جیسے طلاق نہیں ہوئی لیکن طلاق کہہ کر رقم لے لی اور حلالہ کروا دیا۔ 

بنی اسرائیل اور مسلمانوں کے علماء نے بھی یہی حرکتیں کرتے رہے اور آج تک جاری ہے۔ اس کے لیے آپ بنی اسرائیل میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے لیکچرز کو ضرور پڑھیے گا جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کے علماء پر شدید تنقید کی ہے اور وہی ہمارے علماء بھی یہی حرکت جاری ہے۔  اسی تنقید کی وجہ سے علماء نے سازش کر کے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو شہید کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اللہ تعالی نے بچا دیا۔ اسے آپ سورۃ آل عمران، النساء  اور المائدہ میں پڑھیں گے۔ 

یہ کیا کرتے کہ معمولی اشیا پر زکوۃ لے لیتے اور اس پر قبضہ کر لیتے۔ لیکن بڑے احکامات جیسے کسی بیوہ خاتون کی زمین پر قبضہ کر کے مسجد بنا لیتے اور اس کے فنڈ پر قبضہ کر لیتے۔ پھر جو عالم فوت ہوتا تو بڑا خوبصورت مزار بنا دیتے اور اس پر رقم کماتے رہتے۔ اس کی ابھی مثال آپ لاہور میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہجویری صاحب کے مزار پر سونا بھی عقیدت مند جاہل لوگوں نے لگا دیا ہے اور اس پر فائدہ  مولوی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایسی مثالیں آپ کو ملتان، پاک پتن اور دیگر علاقوں میں ملے گی۔ 

سوال: میں چاہتا ہوں کہ تمام فرقوں کے جو غلط عقائد ہیں ان سے بچ جاؤں اور جو قرآن و سنت کے مطابق ہیں انکو اختیار کر لوں۔ اس کے لیے میں کیسے معلوم کروں کہ کس فرقے کی کونسی غلط بات ہے تاکہ میں اس سے اجتناب کروں۔

جواب: تمام فرقوں سے آپ بچ کر رہیں۔ ہر فرقہ کے علماء میں کچھ معقول لوگ ہوتے ہیں۔ صرف انہی کی کتابیں پڑھیں لیکن کسی عالم نے اگر سختی اور تعصب نظر آئے تو ان کا مطالعہ نہ کریں تاکہ ان سے جان چھٹیں۔ میں نے اسی وجہ سے تقابلی مطالعہ کی کتابیں لکھی ہیں تاکہ ہر فرقہ کے معقول علماء کی کتابوں کے حوالے سے ان کے دلائل کو اکٹھا کر دیا ہے جس میں تعصب کی بات بالکل نہیں رکھی بلکہ تمام فرقوں کے معقول علماء کے نقطہ نظر اور دلائل ہی پیش کیے ہیں۔ جب آپ کی دلچسپی ہو گی تو اس وقت آپ ان سب کے نقطہ نظر اور دلائل کو نوٹ کر لیجیے گا اور پھر قرآن مجید کے ساتھ میچ کر لیجیے گا۔ جس کی بات درست ہو تو اسے مان لیجیے گا لیکن کسی سے بھی تعصب نہیں کرنا چاہیے۔ 

میں یہی کرتا ہوں کہ کسی بھی فرقہ کے معقول لوگوں سے دوستی کرتا ہوں اور محبت سے ملتا ہوں۔ اس طرح ان سب کو کتابیں اور لیکچرز اس لیے دے دیتا ہوں تاکہ ان میں تعصب ختم ہو۔ پھر وہ اپنے فرقے کا ٹائٹل چھوڑ کر صرف اور صرف مسلمان ہی خود کو کہلائیں۔ مسلمان کا معنی ہے کہ اللہ تعالی پر سرنڈر کرنے والا۔ یہی ٹائٹل ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام نے اختیار کیا تھا کیونکہ معنی ایک ہی تھا البتہ زبان کے لحاظ سے کچھ فرق ہوا۔  مثلاً لفظ اسرائیل کا معنی بھی وہی سرنڈر کرنے والا ہے جسے عربی میں عبداللہ کہتے ہیں۔ یہ ٹائٹل حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا جو ان کی عبرانی زبان میں اسرائیل تھا جس کا معنی عبداللہ تھا۔ 

سوال: جی مسجد کے مولانا ہر جمعہ کے وقت کہتے ہیں کہ جنھوں نے ٹوپی نہیں پہنی ہوئ وہ پچھلی صف میں چلے جائیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بغیر ٹوپی کے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔

جواب: اس میں بنیادی طور پر نفسیاتی اثرات ہیں۔ اصل میں یہ ہوا کہ 1700 کے زمانے میں فقہ کے فتوے پھیلے جس میں میں نے بتایا کہ اسے بدتمیزی سمجھا جاتا تھا اگر کسی کے سر پر ٹوپی یا عمامہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے وہ مکروہ تحریمی کہنے لگے کیونکہ اس زمانے میں بدتمیزی سمجھی جاتی تھی۔ 

اس زمانے میں درس نظامی کا سلیبس بنا اور پڑھانے لگے۔ پھر مغل سلطنت ختم ہو گئی اور انگریزوں کی حکومت بھی آ گئی۔ مولانا حضرات نے اپنی پرانی کتابوں کو سنبھالا اور مدارس بنانے لگے۔ اب مدارس میں انہوں نے دور جدید کے معاملات پر غور ہی نہیں کیا بلکہ پرانی کتابوں ہی کو پڑھتے ہیں اور آرٹیفیشل طریقے سے اپنے مدارس کے اندر وہی ماحول قائم کرتے ہیں جو اب سے تین سو سال پہلے کا ماحول تھا۔ 

اب مولانا صاحب نے بڑی تاکید کی ہے کہ لازمی ٹوپی پہنو۔ پھر انہوں نے مسئلہ یہ حل پیدا کیا کہ جس کی ٹوپی نہ ہو تو وہ پچھلی صف پر ہوں کہ ایک طرح کی سزا وہ دے رہے ہیں۔ اس لیے آپ نے سنا ہے۔ مولانا صاحب اگر دور جدید کے مسائل کو پڑھتے اور غور کرتے تو اس میں ایشو ہی نہ تھا۔ وہ آپ کو جانوروں کی زکوۃ آپ کو سنا دیں گے لیکن انہیں معلوم نہیں  کہ اسٹاک ایکسچینج، انشورنس اور دیگر معاملات میں زکوۃ کس طرح ادا کرنی ہے۔ اسی طرح نماز میں کئی حضرات نے یہ فتوی دیا کہ چلتی ٹرین میں نماز نہیں ہوتی۔ پھر وہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ ٹرین کو روکو، تاکہ نماز پڑھیں۔ ہوائی جہاز میں نماز ہی نہیں پڑھتے بلکہ اگلے ملک پہنچ کر قضا نماز ادا کرتے ہیں۔ 

یہ سب کہانیاں پرانے زمانے کے ماحول میں جو ایشو تھے، اب وہ ایشو نہیں ہیں۔ دلچسپ مثال یہ عرض کرتا ہوں کہ جب 1920 کے زمانے میں لاؤڈ اسپیکر آیا تو اس زمانے کے  بہت سے مفتی حضرات نے اسے گناہ قرار دیا اور فرمایا کہ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر نہیں آنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ کھلونا قسم کی چیز ہے، مسجد میں کھیلنا بدتمیزی ہے۔  بعد میں کچھ جدید تعلیم یافتہ مفتی حضرات کو سمجھ آیا کہ یہ کھلونا نہیں بلکہ آواز کا آلہ ہے تو انہوں نے اسے جائز قرار دیا۔ اب ہر مسجد میں لاؤڈ اسپیکر موجود ہے۔ 

اس سے زیادہ اور بہت سے تماشے آپ دیکھیں گے کہ پرانے زمانے کے فتوؤں پر جو ابھی عمل کرتے ہیں تو عجیب و غریب شکل نظر آئے گی۔ میں نے اس معاملے کے بڑے بڑے ایشوز کو فقہ کی اپنی کتابوں میں کر دیا ہے۔ چونکہ یہ بھائی مدارس میں پرانے کلچر پر رہتے ہیں، وہ دور جدید کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ اس لیے ان کی تقریر کو جدید تعلیم یافتہ لوگ سنتے ہی نہیں ہیں بلکہ جب  مولانا صاحب کا خطبہ ختم ہوتا ہے تو اس وقت لوگ مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ مذہبی لوگ اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں بہت بڑا خلا موجود ہے۔ علامہ اقبال نے اس زمانے میں یہی نوٹ کیا تو انہوں نے یونیورسٹی میں لیکچرز کیے جسے ان کے بیٹے نے کتاب کی شکل میں کر دیا ہے۔ اس کا نام ہے۔

Resconsutruction of Islamic Thougth

یعنی اسلام سے متعلق خیالات پر دوبارہ چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے اس میں ایک ادارہ بھی بنایا لیکن وہ فوت ہو گئے۔ پھر بعد میں جدید تعلیم یافتہ علماء نے اس پر کتابیں لکھی ہیں۔  میں نے ان تمام بڑے ایشوز کو اکٹھا کر کے فقہ کی اپنی کتابوں میں شامل کر دیا ہے جس میں پرانے علماء کے دلائل اور دور جدید علماء کے دلائل کو اکٹھا کر دیا ہے۔ آپ جب پڑھیں گے تو آپ خود ہی فیصلہ کر سکیں گے۔ 

ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں۔ گجرانوالہ کے ایک بریلوی مفتی صاحب نے یہ فتوی دیا کہ کسی دیوبندی اور اہل حدیث لوگوں سے ہاتھ ملانا گناہ ہے۔ جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ جب اس فتوی  کو دیوبندی اور اہل حدیث حضرات نے سنا تو پھر ایک اہل حدیث مولانا صاحب  اور ایک دیوبندی صاحب انہی بریلوی مفتی صاحب کی مسجد میں پہنچے۔ اب نماز کے بعد بہت سے لوگ نکل رہے تھے تو  ان سے ہاتھ ملانا شروع کیا۔ اس میں کافی 50-100 لوگوں سے ہاتھ ملایا تو ایک دوست نے دیکھا اور پوچھا کہ یہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ان کے فتوے کے مطابق ان کی شادیوں  کو توڑنے کے لیے کھڑا ہوں۔ 

آپ بہت سی ایسی شکلیں دیکھیں گے کیونکہ گجرانوالہ اور فیصل آباد کے لوگوں میں جگت کا بہت شاندار ذوق ہے۔ اس لیے یہ فرقہ واریت کے دوران بہت سی جگتیں کرتے ہیں۔  آپ کا کبھی دلچسپی ہوئی تو آپ یو ٹیوب میں سن لیجیے گا لیکن اسے بس ہنسنے کے لیے مذاق ہی سمجھیے گا ورنہ دین سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ 

اس میں اچھی مثال بھی عرض کرتا ہوں۔ مسلمانوں میں جب بینکنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو  مدارس کے علماء کو معلوم نہیں ہوا کہ اس میں سود ہے یا نہیں ہے؟ اس  لیے اکثر علماء نے فتوی دیا کہ بینک میں جاؤ ہی نہیں۔ اس زمانے میں مفتی شفعی صاحب نے اپنے بیٹے تقی عثمانی صاحب کو تعلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ مدرسہ میں امتحان ختم ہو تو یونیورسٹی میں جا کر اکنامکس اور فائنانس پڑھیں۔ چنانچہ تقی عثمانی صاحب نے تفصیل سے پڑھا اور اب وہ بہت سے بینکوں کے ہر ہر معاملے پر بتاتے ہیں کہ یہ سود ہے، یہ نہ کریں۔

اسی طرح یہ ٹرانزیکشن جائز ہے اور یہ سود نہیں ہے۔ اس طرح مدارس کے علماء میں دور جدید کے معاملات کو سمجھ لیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ کراچی میں ان کی مسجدوں میں نماز پڑھی ہیں تو وہاں کسی مولانا صاحب نے نہیں فرمایا کہ ٹوپی نہیں تو تمہاری نماز نہیں ہو گی۔  اس میں کسی نے بھی روکا نہیں اور نہ ہی پرانی صفوں میں بھیجا ہے۔ 

سوال: بلکل ایسے ہی ہے سر جی۔ اُنھیں مفتی صاحب سے جنھوں نے یہ فتوی دیا تھا میں نے پوچھا کہ چیٹ سے اسلام کے بارے میں معلومات لے سکتے ہیں۔ تو انھیں یہ بھی نہیں پتا تھا کہ چیٹ کیا ہے؟ جیسے جیسے ٹیکنالوجی آرہی ہے ویسے ویاے مدارس کے طلباء کے لیے مسئلے ہو رہے ہیں؟

جواب: آپ نے میرے تجربے والی کتاب کو پڑھ لیا ہو گا۔ جس وقت میں درس نظامی پڑھ رہا تھا تو مدرسہ میں یہی ایشو سامنے آ رہا تھا۔ اس وقت خواہش تھی کہ علماء دین کو دور جدید کی تعلیم حاصل ہونی چاہیے۔ اسی کا رزلٹ پھر یہی ہوا کہ مختلف علوم کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد کتابیں لکھ دیں اور لیکچرز کر دیے تاکہ ان بھائی بہنوں کی خدمت حاصل ہو سکے۔ الحمد للہ یہ بھی نتیجہ نکلا ہے کہ کئی مدارس میں میری کچھ کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں۔ ورنہ اکثر وہ طالبعلم اپنے ایم فل یا پی ایچ ڈی تک جو پہنچتے ہیں تو وہ ضرور پڑھتے ہیں اور فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ الحمد للہ۔ 

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے ان بھائیوں بہنوں کو کامیاب فرما دے۔ تعصب بھی ختم ہو جائے اور سب عزت اور محبت کے ساتھ اختلاف بھی بے شک کر لیں تو تب بھی لڑائی جھگڑا ختم ہو اور فرقہ واریت بھی نہ ہو۔ 

سوال: سر جی جہاں تک مجھے لگتا ہے اس چئز کے پیچھے مخصوص لوگ ہیں جو چاہتے ہی نہیں کہ یہ متحد ہوں۔

جواب: یہ حقیقت ہے۔ اس کے پیچھے وہی دنیا پرستی کا معاملہ ہے۔ سب اپنے شاگردوں کو استعمال کرتے ہیں اور پھر سیاست کے ذریعے معاملات میں لے جاتے ہیں۔ الحمد للہ یہ بہت شکر ہے کہ جو شاگرد ایم فل اور پی ایچ ڈی بن جاتے ہیں تو وہاں تعصب بہت کم ہو جاتا ہے۔ 

انڈیا کے بھائیوں نے بتایا ہے کہ وہاں تعصب بہت کم ہو گیا ہے۔ بہت سے طالبعلم دیوبند سے پڑھ کر بریلی میں تصوف کا مطالعہ بھی کر لیتے ہیں۔ پھر یہاں سے نکل کر دیوبند میں علم الفقہ پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اللہ آباد میں علم الحدیث کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح سب دیوبندی، بریلوی ، اہل حدیث اور شیعہ بھی محبت سے ملتے ہیں۔ اسی طرح ہندو اور سکھ جو تعصب نہیں رکھتے، ان سے بھی اچھا تعلق رہتا ہے اور ان تک ہم دعوت قرآن بھی پہنچا دیتے ہیں۔ انشاء للہ کچھ عرصے بعد پاکستان میں بھی یہی ماحول بن جائے گا انشاء اللہ۔ 
یہی اصلاح میں نے عرب ممالک میں دیکھی ہے۔ وہاں کسی بھی فرقے کی مسجد نہیں ہوتی ہے بلکہ حکومت کی مسجد ہوتی ہے اور اس میں کسی بھی فرقہ کے لوگ آ جاتے ہیں اور اکٹھے ہی جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ حرم شریف میں میں نے دیکھا ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف فرقوں کے باوجود ایک ہی جماعت میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان سے پھر گپ شپ بھی ہوتی رہی ہے اور تعصب نہیں تھا۔ 

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
اسلامی علماء میں فرقہ واریت اور دنیا پرستی کیوں ہے؟
Scroll to top