ہجرت اور نماز خوف سے متعلق دینی احکامات کیا ہیں؟

سوال: السلام علیکم سر جی امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے آج کا مطالعہ سورہ نساء 104 -60 کیا ہے۔ سوال صرف یہ ہیں کہ آیت 97 میں ہے کہ فرشتے پوچھیں گی کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہیں گے کہ ہم ناتواں اور عاجز کر دیے گئے تھے تو فرشتے کہیں گے کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ اس میں ہجرت کر جاتے۔ تو اس کے مطابق فلسطین والوں کو ہجرت نہیں کرنی چاہیے؟ محمد وکیل، کروڑپکہ

جواب: یہاں پر جہاد کا موضوع ہے اور اس وقت بہت سے قبائل کے اندر چند لوگ ایمان لائے تھے۔ اس وقت قبیلے کے لیڈرز، اپنے بدمعاشوں کے ذریعے اپنے ساتھیوں پر تشدد کر رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت دی کہ وہ جہاد کریں۔ اس کے لیے کئی طریقے تھے۔  ایک طریقہ یہ تھا کہ اس قبیلے کے سرداروں سے آزادی کا معاہدہ کروا لیں تاکہ جو ایمان لائیں تو ان پر کوئی تشدد نہ کرے۔ اگر وہ معاہدہ نہ کرے تو پھر جنگ کریں۔ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے قبائل میں تشریف لے گئے اور اکثر معاہدے ہو گئے۔ 

اس وقت مختلف قبائل کے اہل ایمان پر یہ حکم نازل ہوا کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ جائیں۔ اس کے لیے انصار مدینہ پر ذمہ داری تھی کہ وہ ان کی معاشی مدد کریں تاکہ وہ سیٹل ہو جائیں۔ اس وقت تک جو مہاجرین بھی سیٹل ہو گئے، ان پر بھی ذمہ داری تھی کہ وہ نئے مہاجرین کو بھائی بنا کر ان کی معاشی خدمت کریں۔ 

ہجرت کی یہ ذمہ داری صرف انہی لوگوں پر ہے، جو وہ ممکن کر  سکیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہر ملک میں پاسپورٹ بن گئے اور اس کے لیے ویزا کی ضرورت ہے۔ فلسطین بھائی بالخصوص غذہ کے لوگوں پر پابندیاں بھی پیدا ہو گئی ہیں اور وہ ہجرت نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس آیت میں ان سے  متعلق نہیں ہے۔ اس سے کافی عرصے پہلے  ان سے متعلق یہ حکم تھا۔ اس وقت بہت سے فلسطینی بھائی ہجرت کر سکتے تھے ۔ بہت سے لوگ اردن، سعودی عرب، مصر، سیریا وغیرہ جا سکتے تھے اور چلے بھی گئے۔ پھر بہت سے لوگ آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ بھی رہ سکے تھے۔ اب ان پر جبر کا ماحول ہو گیا ہے۔ 

دوسری جنگ عظیم کے بعد 1967 تک غذہ مصر کا حصہ تھا۔ اسی طرح دریائے اردن کا مغربی علاقہ جس میں یروشلم بھی شامل ہے، یہ اردن کا حصہ تھا۔ پھر 1967 کی جنگ ہوئی تو ان سب پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ اس وقت مغربی حصہ کے بہت سے لوگ پھر اردن ہی میں رہنے لگے۔ ان میں سے بہت سے دوست مجھے سعودی عرب ہی میں ملے ہیں۔  اس جنگ میں سینا کا پورا جزیرہ بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا جس میں طور پہاڑ شامل ہے۔ پھر اسرائیل نے امریکہ کی اجازت کے بغیر ہی 1973 میں مصر میں جنگ کر بیٹھے۔ اس میں مصریوں نے اسرائیل کو بہت مارا ہے۔ 

پھر اسرائیل نے بڑی معذرت  کی تو امریکہ نے مصر اور اسرائیل کے معاہدے کروا دیے۔ سینا مصر کو واپس دے دیا لیکن غذہ مصر کو نہیں دیا۔ جب امن تھا تو 2007 میں میں سینا گیا تھا۔ اس وقت کوہ طور پر بہت سے اسرائیلی اور یورپی لوگ آئے ہوئے تھے۔ مصر کے دیہاتی لوگ انہیں سمجھا رہے تھے کہ یہ پاکیزہ برکت کا علاقہ ہے، اس میں لباس اچھا پہنو۔ اس کے نتیجے میں یورپی اور اسرائیلی لوگوں کو مصری لوگ دھوتی کرائے پر دے رہے تھے۔  آپ تصور کریں کہ یورپی خواتین بھی بڑی عقیدت سے دھوتی کرائے پر پہن کر  کوہ طور پر جا رہی تھیَ 

سوال: سورۃ النساء کی 102 آیت میں جہاد کے دوران نماز کے طریقے کا ذکر ہے اسکی وضاحت کردیں سمجھ نہیں آئی کہ جہاد میں آپا دھاپی کی حالت بن جاتی ہے۔ بڑی جلدی موومنٹ ہوتی ہے اور پھر سکون سے کوئی نہیں رک سکتا ہے۔ اگر کہیں رکے بھی ہوں، تب بھی یہ خطرہ رہتا ہے کہ پہلے زمانے میں تیر مارے جا سکتے تھے اور اب تو بم اور میزائل بھی مارے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے وہی اصول انہیں بتا دیا کہ ہر انسان پر ذمہ داری وہی ہے جس میں اس کی طاقت ہو۔ چنانچہ نماز کو آدھا کر دیا، پھر کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر طرح نماز کی اجازت بھی دے دی۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وجہ سے اجازت دی ہے کہ آپا دھاپی کی کبھی بھی حالت ہو جیسا کہ سفر میں ہوتی ہے تو وہاں پر بھی یہ آسانی کر دی تھی۔ 

اب  آیت 102 میں ایک خاص صورتحال تھی۔ جہاد ہو رہا تھا اور ابھی جنگ نہیں ہوئی لیکن کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جماعت کی نماز پڑھا رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ ہی نماز پڑھیں کیونکہ کوئی معلوم نہیں کہ کتنے سیکنڈ میں ہم شہید ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت تھی کہ زندگی کے آخری سیکنڈ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لیں۔ 

اللہ تعالی نے اس کی اجازت دے دی کہ آپ آدھا حصہ کر لیں۔ فوج کا آدھا حصہ ایک رکعت پڑھیں اور چلے جائیں۔ پھر فوج کا دوسرا حصہ آ کر ایک رکعت پڑھ لیں۔ اس وقت چار رکعت کو بھی دو رکعت کر دیا تھا۔ 

یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی تھا۔ بعد میں اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ اب موجودہ زمانے میں آپ 10-15 دفعہ جماعتیں پڑھ لیں تاکہ باقی لوگ سکیورٹی کے طور پر رہیں۔ ہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے تھے تو اس وقت تو ہر صحابی کی خواہش تھی کہ ہم آپ کے ساتھ ہی نماز پڑھیں۔ اللہ تعالی نے اس محبت کو پسند فرمایا ہے۔ 

اگلی صدیوں میں فقہاء نے احمقانہ فتوے کیے ہیں  اور اسی طرح ایک رکعت پڑھ کر نماز پڑھو اور اسے نماز خوف کہتے ہیں۔ اب تو الگ الگ کئی جماعتیں پڑھ سکتے ہیں، اس لیے اس نماز خوف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب فوج کا کوئی بھی کمانڈر ہو، تب بھی الگ الگ یونٹ اپنی جماعت کروا سکتے ہیں۔ 

سوال: میں مختلف گروپس اور سوشل میڈیا پر پڑھ چکا ہوں کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ایسا کرنا چاہئے؟ کیااسرائیلی مظالم کا اصلی حل یہی ہے؟ برائے مہربانی اصلی حل بتائیں۔

جواب: اسرائیل حکومت  عوام پر ظلم کر رہی ہے۔ اس لیے اس اسرائیلی حکومت کی مصنوعات پر بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ رہے عوام  تو اس میں کسی بائیکاٹ سے اس ظلم کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر اسرائیل حکومت کوئی میزائل بنا رہے ہیں، تو مسلمان حکومتوں کو بالکل خریدنا نہیں چاہیے تاکہ اسرائیلی حکومت پر  پریشر رہے کہ وہ عوام پر ظلم نہ کرے۔ 

عوامی بزنس میں  اسرائیل ملک کے مسلمان اور غیر مسلم سب پر ظلم پیدا ہو سکتا ہے۔ مثلاً فلسطینی مسلمان ، عیسائی اور یہودی اپنے  باغوں میں پھل پیدا کر کے سعودی عرب،  اردن ، کویت، قطر ، امارات وغیرہ ممالک کے لوگوں کو بیچ رہے ہیں۔ اب اس پر بائیکاٹ کیا جائے تو پھر فلسطینی مسلمانوں پر ہی ظلم پیدا ہو جائے گا کہ  انہیں آمدنی نہیں ملے گی اور پھر ان کے بچوں پر ظلم پیدا ہو جائے گا۔ یہی ظلم نہ تو کسی مسلمان پر جائز ہے اور نہ ہی یہودیوں پر۔ بائیکاٹ کر کے  عوام اور بچوں پر ظلم کبھی بھی دین میں جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ 

اس کی نہایت ہی عمدہ مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ملتی ہے جو اسوہ حسنہ ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت مدینہ منورہ میں بن گئی تھی۔ پھر تین مرتبہ اہل مکہ کی فوج  نے حملہ کیا تھا جس میں جنگ بدر، احد اور الاحزاب جنگیں ہو چکی تھیں۔ اس میں کسی وقت اہل مکہ کے عوام کو  قحط کی مسئلہ پیدا ہوا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ  سے کھجوروں کے بہت سے بیگ مکہ مکرمہ پہنچا دیے تاکہ عوام پر کھانا ملتا رہے۔

اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ عوام کو واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی پر ظلم نہیں کرتے ہیں حالانکہ ہماری حکومتی فوج تین حملے کر چکے ہیں۔جب انہیں واضح ہوا تو خود فوج کے بڑے بڑے کمانڈرز بالخصوص خالد بن ولید اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما مکہ مکرمہ سے نکل آئے او رمدینہ منورہ پہنچ کر ایمان لائے۔  پھر یہی دونوں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوج کے کمانڈرز بنے اور انہوں نے فلسطین، سیریا، ترکی، اردن اور مصر کو فتح کر دیا۔ ان کے علاوہ  اہل مکہ کی اکثریت ایمان لائے۔ اسی اسوہ حسنہ پر ہم نے عمل کرنا ہے کہ ہم مسلمان اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا عمل کریں۔ 

سوال: کیا جہنم میں نیند بھی ہوگی؟

جواب: جنت اور جہنم میں جو معاملات ہوں گے، یہ مستقبل میں ایسا ہو گا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متشابہات کے ذریعے کچھ مثالیں واضح کر دی ہیں جس میں جنت اور جہنم میں اس طرح کے کچھ معاملات ہوں گے۔ ان متشابہات کا ہمیں صرف اندازہ ہی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ مثالیں اس لیے دی ہیں تاکہ ہم اندازہ ہی کر سکیں کہ ہمیں جنت میں جانا چاہیے یا جہنم میں۔ 

اب ظاہر ہے کہ مستقبل میں جو کچھ ہو گا، وہ اس وقت ہی ہمارا تجربہ ہو گا تو واضح ہو جائے گا۔  اس وقت تک قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جو مثالیں بیان فرمائی ہیں، اس میں نیند کو کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ جہنم میں سزائیں ہی ہو رہی ہوں گی۔ نیند کے بارے میں کچھ بھی ارشاد نہیں فرمایا ہے اور نہ ہی احادیث نبوی میں کوئی جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے اس سوال کو ہم آخرت تک انتظار کر لیں۔ ہم جب بھی  جنت یا جہنم میں پہنچیں گے تو واضح بھی ہو جائے گا اور سوال کا جواب مل جائے گا۔ 

جن لوگوں نے اپنے ذہن میں بس خود آئیڈیاز سوچے ہیں تو اس میں اختلافات ہی نظر آئیں گے کیونکہ فلسفہ کے ماہرین نے اپنے آئیڈیاز ہی پیش کیے ہیں۔ مثلاً کسی فلسفی نے کہہ دیا کہ شاید جہنم میں نیند بھی ہو گی کہ سزا مل کر کچھ عرصے کے لیے نیند ہو جائے تاکہ اگلی سزا کے لیے تیار ہو جائے۔ دوسرے فلسفی نے سوچا کہ شاید مسلسل سزائیں ہی ہوتی رہیں گے۔ اس میں احمقانہ بحثیں جاری ہوئیں اور  اس میں فلسفہ کے فرقے پیدا ہوتے رہے ہیں اور پھر مناظرے کرتے رہے ہیں۔

اس لیے مستقبل کی صورتحال پر خود فلسفہ سے بچنا چاہیے اور اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔جتنی مثالیں واضح کر دی ہیں تو اسی پر صرف اتنا ہی فوکس کرنا چاہیے کہ ہم جنت کا انتخاب کریں یا جہنم کا۔ اس سے زیادہ مزید بحثوں کی ضرورت نہیں ہے۔  اگر پھر بھی ذہن میں پریشر ہو تو آپ خود ہی ایسا اندازہ کر سکتے ہیں تو اپنے ذہن کو مطمئن کر کے کسی اور کے ساتھ بحث نہ کیجیے گا۔ 

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
ہجرت اور نماز خوف سے متعلق دینی احکامات کیا ہیں؟
Scroll to top