سوال: کیا کوئی مکان آسیب زدہ ہوسکتا ہے؟
جواب: زیادہ تر لوگ جادو ٹونا کے لیے پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس کے لیے اندر ہی کوئی نہ کوئی ایسا سافٹ ویئر بھی لگا دیتے ہیں کہ جو آدمی اندر داخل ہو تو چیخیں یا کوئی ڈراؤنی آواز نکلتی ہے۔ اس میں پھر آدمی ڈر جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں پراپرٹی کی ویلیو گرتی ہے۔ مالک گھبرا جاتا ہے اور وہ پھر اس گھر کو بیچ دیتا ہے۔ جس آدمی نے یہ ڈرامہ کروایا ہے، اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ سستا گھر پر قبضہ آ جائے۔ اس کے لیے آپ یہ کیس اسٹڈیز سن سکتے ہیں۔ پرانے زمانے کے لیے یہ ڈرامہ کسی اور طرح کرتے تھے اور آج کل سافٹ وئیر کے ذریعے کر لیتے ہیں۔
باقی سچ مچ آسیب زدہ کہ جس میں کوئی واقعی جن بھوت ہو جو ہمیں کوئی حرکت کریں تو کبھی زندگی میں ایسا نہیں دیکھا ہے۔ آسیب زدہ جسے کہا جا رہا ہے، اس کے لیے آپ دس پندرہ آدمیوں کے ساتھ چلے جائیں تو کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا۔ اکیلا آدمی آ جائے تو پہلے کوئی اسے ڈنڈا مار کر بیہوش کر لیتے تھے یا پھر کسی ہوا میں ایسا کیمیکل لگا کر بیہوش کر دیتے تھے۔ اس میں جن کچھ نہیں کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس کے اندر انسان ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس ٹارگٹ آدمی کو معلوم نہیں ہوتا ہے اور باقی اس فراڈ کرنے والے کے ساتھی پراپیگنڈا کرتے پھرتے ہیں۔
سوال: آسیب، بھوت، چڑیل اور بدروح کی کیا حیثیت ہے؟ کیا کوئی نیک روح یا بد روح دنیا میں واپس آکر کسی کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟
جواب: یہ سب جنات کی شکلوں کے نام بنا دیے ہیں۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ پراپیگنڈا کرنے والوں نے الگ الگ کہانیاں ایجاد کی ہوئی ہیں۔ یہی کہانیاں پھر کتابوں میں موجود ہیں۔ کئی بڑے معقول آواز میں لیکچر بھی بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جنات کو کوئی ایسی طاقت نہیں دی ہوئی ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکیں۔ وہ صرف اور صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ آدمی کو کنفیوز کر کے غلط آئیڈیاز ہی ذہن میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس طرح جن کی طاقت بس اتنی ہی ہے جیسا کہ کوئی کورئیر والا ہمیں پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ باقی اس کے اندر انسان ہی ہوتا ہے جو اس غلط آئیڈیا پر پراپیگنڈا کے ذریعے کہانیاں سنا کر انسان کو قائل کر لیتا ہے۔
سوال: جنات کو کس حد تک انسانوں کو معاملات میں مداخلت کی اجازت دی گئی ہے؟ کیا کوئی جن انسانوں کے فزیکل معاملات میں دخل اندازی کرسکتا ہے؟
جواب: یہی عرض کر دیا ہے کہ جنات کو صرف اتنی سی طاقت ہے کہ وہ پیغام پہنچا دیں۔ باقی ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتے ہیں اور باقی انسان ہی جعلی کہانیاں بنا کر پراپیگنڈا کرتا ہے۔ اس طرح وہ انسان اپنا فساد یا کوئی اور فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اس کی مثال یہی ہے کہ جیسا کہ پراپرٹی کی ویلیو گرا کر سستا لے لیا۔ اس کے علاوہ کسی لڑکی کو ڈرا کر پراپیگنڈا کر کے اس سے شادی کر لی یا پھر آج کل اسے اپنا گرل فرینڈ بنا دیا۔ ساری حرکتیں پیچھے چھپے ہوئے انسان ہی کی ہوتی ہے۔ جو انسان مخلص ہو تو وہ تو کلیئر اور واضح طریقے سے ٹرانسپیرنٹ رہتا ہے۔ غیر مخلص لوگ ہی سیاست، مذہبی پراپیگنڈا اور دیگر طریقوں میں استعمال کرتے ہیں۔
سوال: کیا کوئی جن کسی لڑکی یا لڑکے میں سرائت کرسکتا ہے یا اسے چمٹ سکتا ہے؟
جواب: اپنے آپ کو ذہنی طور پر مضبوط کر لیں اور جب بھی کوئی جناتی کہانی سنائے تو اسے جھوٹ سمجھیں اور اسے انسان کی کاوش سمجھیں کہ وہی انسان آپ کو چمٹ رہا ہے۔ پھر آپ اس غیر مخلص انسان سے دور ہو جائیں اور اس سے جان چھڑا لیں تو پھر اس کہانی کے جن، بھوت، چڑیل سب اڑ کر فنا ہو جاتے ہیں۔ ہاں آدمی اگر اس انسان کے آنکھیں بند کر کے اندھا مرید بن جائے تو پھر اس پر وہی اثرات جاری رہتے ہیں۔
سوال: کیا کوئی انسان جنات کو اپنے قابو میں کرکے ان سے کام کروا سکتا ہے؟
جواب: اس کے لیے یہ طاقت اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کو دی تھی کہ وہ جنات کو قابو کر کے کام کروا لیتے تھے۔ رہے عام انسان تو مجھے تو کوئی تجربہ نہیں ہوا کہ اس نے جن کو قابو کیا ہو۔ دعوی تو بہت کرتے ہیں لیکن پھر ان سے پوچھیں کہ جناب آپ نے کونسی بلڈنگ ٹاور بنا چکے ہیں یا پھر جہاز یا میزائل ایجاد کر چکے ہیں جو جنات کی طاقت سے کر چکے ہیں؟ اس میں وہ صاحب نہ تو جواب دے سکیں گے یا پھر کوئی جعلی کہانی سنا کر کہہ دیں گے کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کے طریقے کے ذریعے قابو کیا ہے۔
آپ کہہ دیں کہ اچھا جی، کر لیا ہے تو ابھی کر کے دکھا دیں کہ ایک دن میں یہ دس منزلہ بلڈنگ کر کے دکھا دیں۔ یہاں ان کا دعوی غصے کے ساتھ بھاگ جائیں گے کہ یہ بندہ قابو نہیں ہو رہا ہے۔ مذہبی طور پر لوگوں کو نفسیاتی غلام بنانے کے لیے یہی پراپیگنڈا کا طریقہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ میری کتاب اور لیکچرز میں سن سکتے ہیں۔
سوال: سلیمان علیہ السلام جنات سے فزیکل کام کرواتے تھے، جیسے دیگیں بنوانا، محرابیں اور تماثیل بنوانا۔ کیا آج جنات یہ کام کرسکتے ہیں یا یہ صرف سلیمان علیہ السلام تک محدود تھا؟
جواب: حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے طاقت دی ہوئی تھی کیونکہ وہ اللہ تعالی کے نبی تھے۔ اگر یہ معاملہ نارمل انسان کا ہوتا تو پھر وہ اپنے ہنر کی تفصیلات کر دیتا۔ پھر دوسرا انسان اس کتاب کو پڑھ کر سائنس کی طرح کر کے سیکھ لیتا۔ اس میں صرف پرانی کہانیاں ہی ہیں کہ انسانوں نے حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کے طریقے کو سیکھ لیا ہے۔ اس کا جواب پھر یہی ہے کہ آپ اگر سیکھ چکے ہیں تو کیسے سیکھا اور اب ہمیں پڑھ کر سنا دیں۔ ہم بھی کر کے دیکھ لیں۔ یہاں پر وہ اڑ کر بھاگ جائیں گے۔
سوال: کیا جنات کی بھی انسانوں کو نظر لگ جاتی ہے؟
جواب: حقیقتاً یہ سب پراپیگنڈا ہی ہوتا ہے جس میں اندر سے کوئی انسان ہی نظر لگا کر کسی سنسٹو انسان کو پراپیگنڈا کر کے اسے کنفیوز کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے کئی مذہبی لوگ بھی یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد پارٹیاں بھی اسی طرح جعلی کہانیاں سنا کر لڑکوں لڑکیوں کو قائل کر دیتے ہیں۔ پھر انہی کو انجکشن اور میڈیسن کے ذریعے پاگل کر کے انہیں خود کش حملہ کروانے پر تیار کر دیتے ہیں۔
سوال: کیا جنات کبھی ایسی شکل اختیار کر سکتے ہیں کہ انسان ان کو دیکھ سکیں؟
جواب: دین میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ باقی جادو ٹونا کرنے والے سائیں حضرات کہہ دیتے ہیں۔ پھر انہی سے وہی طریقہ کر کے پوچھ لیں کہ جناب اس پر آپ کتاب یا لیکچرز کے ذریعے ہمیں طریقہ بتا دیں۔ ہم بھی کر کے چیک کر لیتے ہیں۔ یہاں ان کا دعوی بھی غائب ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہ کہیں گے کہ میرے مرید بنو تو میں تمہیں دس سال میں سکھا لوں گا۔ جو آدمی ایسا اندھا مرید بن جائے تو اسے وہ پراپیگنڈا کے طریقے سکھا دیتے ہیں۔
سوال: کیا عمرہ کرنے کے لئے بھی قربانی کرنا ضروری ہے؟ اگر نہیں تو پھر نبی ﷺ اور 1400 صحابہ کرام جب بیعت رضوان کے موقع پر عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تھے تو ساتھ قربانی کے جانور کیوں لے کر گئے تھے اور انہیں اسی مقام پر کیوں ذبح کردیا گیا تھا؟
جواب: عمرہ بھی نفل ہے اور اس کی قربانی بھی نفل ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جس کے پاس جو بھی جانور تھے تو وہ قربانی کے لیے لے گئے تھے۔ اب بھی نفل ہے تو آپ عمرہ کرنے جائیں اور اتنی رقم ہو تو آپ قربانی کر سکتے ہیں جس میں اجر لے سکتے ہیں۔ اگر اس قابل نہیں ہے تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی طرح حج میں بھی قربانی اسی کا نفل عمل ہے۔ قربانی کے قابل نہیں ہیں تو پھر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
قرآن مجید میں پابندی صرف یہ ہے کہ آپ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں تو پھر قربانی فرض ہو جائے گی۔ اگر آپ اس سفر میں صرف حج ہی کر رہے ہیں یا صرف عمرہ ہی کر رہے ہیں تو پھر یہ نفل ہے۔ یہ موضوع آپ خود سورۃ البقرہ میں 193 آیت سے لے کر مسلسل موضوع ہے۔
سوال: کسی کو نظر لگنا کیسا ہے؟ یہ کس طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ فلاں بچے یا بڑے کو نظر لگ چکی ہے؟
جواب: نظر لگانا ایک نفسیاتی عمل ہے اور بچے چونکہ سنسیٹو ہوتے ہیں تو اس لیے احادیث میں سمجھا گیا ہے کہ آپ احتیاط کریں۔ بڑے لوگ بھی اگر سنسٹو ہوں تو ان پر بھی اثرات آ سکتے ہیں۔ اگر انسان یا بچہ نارمل حالت میں بالکل ڈھیٹ یا کھوچل عادت کا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لوگوں کی بری نظر بھی دکھائیں تو میرے جیسا آدمی ہو تو کبھی فرق نہیں آیا ہے۔ ہاں سنسٹو لوگوں میں اثر آتا ہے۔
سوال: جادو کیا چیز ہے؟ کیا یہ کوئی ہاتھ کی صفائی،شعبدہ بازی، کیمیکلز کا استعمال اور فراڈ وغیرہ قسم کی کوئی چیز ہے؟ اگر یہ فراڈ قسم کی کوئی چیز ہے تو پھر نبی ﷺ نے جادو کو کفر یا شرک کیوں قرار دیا ہے؟
جواب: جادو بھی ایک نفسیاتی عمل ہے جس میں سنسٹو انسانوں کو کنفیوز کرنے کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے جس سے انسان کو کوئی نقصان آ سکتا ہے۔ زیادہ تر حصہ محض فراڈ ہی ہوتا ہے کہ اس کے مرید پراپیگنڈا کر کے لوگوں کو قائل کر لیتے ہیں۔ پھر وہ جادو ٹونا کو ختم کرنے کے لیے پیر صاحب کے چلے جاتے ہیں اور انہیں رقمیں بھی دیتے رہتے ہیں اور پھر پیر نے نفسیاتی عمل کر کے اس بیماری کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے بہت ہی خوفناک عمل خواتین پر کیے گئے ہیں جسے آپ انسپکٹر ملک صفدر حیات صاحب نے تجربہ بیان کیا ہے۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ جن بھی پیر حضرات سے ملاقات ہوئی تو سب ہی فراڈ نظر آیا ہے۔ ایک بار تاندلیانوالہ میں ایک فیملی کے ساتھ پیر صاحب کے پاس پہنچے تو خاتون بہت حیران ہوئیں کہ سائیں کو پہلی بار دیکھا ہے کہ وہ نہا رہے ہیں ورنہ کبھی ایسا نہیں کیا ہے۔ سائیں صاحب نے سن لیا اور اسے طریقے کو اپنی مارکیٹنگ پر استعمال کیا اور ڈرامہ کر کے فرمانے لگے کہ جیسے وہ کسی جن سے بات کر رہے ہیں۔ اس میں فرمایا کہ “اج میں نہا کے تینوں دھو بیٹا آں۔ ہن نس جا ۔” اس پر پھر ان کے مریدین بہت متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر حضرات کو دیکھا ہے تو یہی حرکتیں نظر آئی ہیں۔
سوال: کیا نبی ﷺ پر بھی جادو ہوا تھا؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ یہودیوں کے جادو ٹونا کا عمل کرتے تھے اور ان کی خواتین بھی اس کی ماہر تھیں۔ اس پر اللہ تعالی نے بچا دیا کہ اپنے رسولوں کو اسی طرح بچا دیتے رہے ہیں اور جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سکھا دی کہ اس کے ذریعے آپ بچتے رہیں۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ. (1) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ. (2) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ. (3) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ. (4) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ. (5)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہےکیونکہ اس رب کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (اے رسول اور امت!) آپ دعا کیجیےکہ میں اُس رب کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح نمودار کرنے والا ہے۔ ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ہے۔ بالخصوص اندھیرے کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور ساتھ ہر حاسد کے شر سے، جب وہ حسد کرے۔ (سورۃ الفلق 113)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پھیلنے لگی اور مدینہ منورہ میں حکومت بھی بن گئی۔ اس وقت اہل کتاب میں حسد کا سلسلہ جاری ہوا۔ پورے عرب میں اہل کتاب ہی کو مذہبی لیڈرز سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر قتل عام کی کوشش بھی کی اور پھر انہی کی خواتین نے جادو ٹونا کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے آخری سورتیں نازل کیں تاکہ اللہ تعالی سے دعا کریں تاکہ پناہ حاصل کریں تاکہ جادو ٹونا کے کوئی اثرات نہ ہوں۔ چنانچہ یہی ہوا اور جادو ٹونا کا کوئی اثر نہیں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سمجھا دیا کہ وہ رات میں بچےاور فیملی کو باہر نہ کریں تاکہ جسمانی یا ذہنی بیماری نہ ہو سکے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ. قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ. (1) مَلِكِ النَّاسِ. (2) إِلَٰهِ النَّاسِ. (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ. (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ. (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ. (6)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہےکیونکہ اس رب کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (اے رسول اور امت!) آپ دعا کیجیے کہ میں انسانوں کے رب سے پناہ مانگتا ہوں۔ انسانوں کے مالک کی پناہ انسانوں کے خدا کی پناہ اُس (جادو ٹونا والے) کے شر سے جو وسوسہ ڈالتا اور پھر الگ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنات اور انسانوں میں سے ہوتے ہیں۔ (سورۃ الناس 114)
مسلم دنیا اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی اور جادو ٹونا کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ اس کا ٹارگٹ یہی ہوتا ہے کہ جو ذہنی طور پر لوگوں کو کنفیوز کر سکیں اور انہیں اپنا پیروکار بنا لیں تو وہ ایسے آئیڈیاز استعمال کرتے ہیں کہ انسان ان کا مرید بن سکے۔ ان کے طریقے یہ ہیں۔
۔۔۔۔۔ِ پراپیگنڈا ۔۔۔ کرامت کا ڈرامہ اور اندھی تقلید کی عادت تاکہ ہیپناٹزم اور مردہ بدست زندہ کی دعوت
۔۔۔۔۔ِ مرشد کی طرف مسلسل توجہ تاکہ وہ نفسیاتی غلام بن جائے۔ اس کے لیے کیمیکل میڈیسن اور انجکشن استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔ تاریخ میں حشیشین تحریک کا یہی نفسیاتی غلامی کا طریقہ تھا۔ ۔۔۔۔۔ِ ااور اب دہشت گرد بھی یہی استعمال کرتے ہیں۔
483-656H/1090-1258CE
تفصیل کے لیے آپ میری کتاب مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی میں پڑھ سکتے ہیں۔ https://mubashirnazir.org/2022/11/28/%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d8%af%d9%86%db%8c%d8%a7-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b0%db%81%d9%86%db%8c%d8%8c-%d9%86%d9%81%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%aa%db%8c /
سوال: دجال کی کیا حقیقت ہے؟ حدیث میں آتا ہے کہ دجال جب آئے گا تو وہ ایک شخص کو مار کر دوبارہ زندہ کردے گا، آسمان کو بارش کا حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا ، زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو وہ اس کے حکم سے سبزہ اگائے گی۔ کیا یہ سب خدائی اختیارات نہیں ہیں؟
جواب: احادیث میں دجال ایک فراڈ کرنے والا ہو گا اور دجال کا معنی ہی فراڈیا ہے۔ اب یہ حدیث آپ پلیز ڈھونڈ کر بتا دیں تو میں عرض کر دوں گا کہ یہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ اگر قابل اعتماد ہے تو پھر صرف یہی ہو گا کہ اپنے مریدوں کو فراڈ کر کے بارش دکھا دے گا اور سبزہ اگانے کو دکھا دے گا۔ اس کے مرید نہ ہوتے اور نارمل انسان ہوتے تو انہیں ویسے ہی نارمل بارش اور سبزہ کو دیکھ لیتے کہ یہ نیچر کے لحاظ سے ایسا ہوتا ہی ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com