السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ: محترم بھائی، امید ہے آپ ایمان و صحت کی بہترین حالت میں ہوں گے۔ سوال عرض ہے۔
عذاب قبر بارے مستند احادیث کی روشنی میں آگاہ فرمائیں۔ میں نے بچپن میں ہی موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہوگا نامی کتاب پڑھی تھی اورپکا یقین بن گیا کہ قبر میں سوال جواب اور عذاب و راحت کا سامنا کرنا پڑتا۔ کچھ دن پہلے فیس بک پہ کہیں پڑھا کہ عذاب قبر کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ یہودی عقیدہ ہے۔ کچھ یوں ذکر تھا کہ یہودی عورتیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتیں اور اچھے معاملے کے جواب میں کہتیں کہ اللہ تمہپیں قبر کے عذاب سے بچائے، سیدہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا یہوری عورتیں جھوٹ بولتیں۔ اس طرح کا لکھا تھا۔ سوال ہے کہ عذاب قبر کا عقیدہ درست ہے؟
آپ کے لیے دعا گو
شہزاد
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ شہزاد بھائی
بہت عرصے بعد آپ سے رابطہ ہوا ہے۔ کیا حال ہے اور آپ کی جاب کیسی جا رہی ہے۔ کافی عرصے تک آپ کے ذہن میں کوئی سوالات پیدا نہیں ہوئے کہ ہمارے ہاں رابطے پیدا ہوتے۔ جواب حاضر خدمت ہے۔
تبلیغی ذوق والے حضرات نے جو کتابیں لکھی ہیں، تو بہت سی ضعیف (کمزور) احادیث بلکہ جعلی حادیث بھی اکٹھی کر دی ہیں۔ موت کا منظر والی کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس میں صحیح (قابل اعتماد) احادیث بھی مل جائیں گی اور بعض ضعیف اور جعلی احادیث بھی مل جائیں گی۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہر حدیث کا متن قرآن مجید اور لاجک کے ساتھ میچ کرنا چاہیے۔ جو میچ ہو جائے تو پھر اسے قبول کرنا چاہیے ورنہ نہیں۔
عقائد تو ایمان کا حصہ ہے اور کوئی عقیدہ قرآن سے الگ نہیں پیدا ہو سکتا ہے۔ اب قرآن مجید میں آپ پڑھ لیجیے تو قبر کا عذاب تو صرف فرعون ہی کا ذکر ہے کہ اسے سزا نظر آتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ نفسیاتی عذاب ہوا کہ تکلیف ہوتی ہو گی۔ اب ظاہر ہے کہ فرعون تو کتنا بڑا کافر اور لوگوں پر ظلم کرنےو الا آدمی تھا اور پھر اس تک اللہ تعالی کا پیغام حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے پہنچا دیا تھا اور سمجھا بھی دیا۔ تب بھی فرعون نے انکار کیا تو اسے تو سزا ملنی ہی چاہیے۔
اب آپ اس سے یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بہت بڑا مجرم آدمی جو فرعون کے لیول کا ہو تو پھر اسے بھی قبر کی سزا اور آخرت میں پھر جہنم کی سزا بھی ملے گی۔ اس سے کم لیول کے مجرم کے بارے میں قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ صحیح احادیث میں آپ کو مل جائے گا کہ اس سے بھی جہنم کی سزا کو دکھانے والی شکل آئے گی تو نفسیاتی سزا خود ہے۔ تبلیغی ذوق والے بھائیوں نے نارمل آدمی پر بھی زبردستی پھنسا دی کہ اسے کیڑے کاٹیں گے وغیرہ لیکن آپ کو صحیح احادیث میں کچھ نہیں ملے گا۔
آپ سورۃ توبہ کا مطالعہ کر لیجیے تو اس میں موجودہ زندگی میں مجرموں کی سزا کی تفصیل ہے جن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالی کا پیغام پہنچ گیا تھا۔ اس میں سزا کیسی ہے:
۔۔۔۔۔۔۔ منکرین اور مشرکین کے لیے سزائے موت کی سزا تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی فرعون کے لیول کے مجرم تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب کو موت کی سزا نہیں دی بلکہ انہیں مغلوبیت کی سزا دی ہے۔ تاریخ میں یہی مغلوبیت کی سزا مسلمانوں کو بھی ملی ہے جو آج تک موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی لیڈرشپ نے قرآن مجید کو پڑھنا سمجھنا چھوڑ دیا اور شریعت پر عمل نہیں کیا تو مسلمانوں کے تمام حکمران ہی اس وقت امریکہ اور یورپ کی مغلوبیت میں جوتے کھا رہے ہیں۔ نارمل مسلمان جو ایمان اور شریعت پر عمل کرتے ہیں اور قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں کوئی سزا نہیں ملتی ہے بلکہ موجودہ زندگی میں انجوائے بھی کرتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ منافقین کی سزا یہ ہوئی کہ ان کے نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح کر دیا کہ یہ منافق ہیں۔ باقی انہیں موت کی سزا نہیں دی لیکن ذلیل ہو کر رہے۔ پھر جو مخلص ہو گئے تو وہ نارمل مسلمانوں جیسی زندگی گزار چکے۔
۔۔۔۔۔۔۔ مخلص اہل ایمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں صرف تین صحابی تھے جن سے غلطی ہوئی کہ وہ تبوک سفر میں شامل نہیں ہوئے اور ان کا ذکر سورۃ توبہ کے آخر میں ہے۔ انہیں سزا یہ ملی کہ انہیں بائیکاٹ کر دیا اور یہ سلسلہ 50 دن تک جاری رہا۔ انہوں نے توبہ کر لی تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اعلان کر دیا اور ان کا بائیکاٹ ختم ہو گیا۔ انہی کی توبہ پر اس سورۃ کا نام بھی مشہور ہوگیا سورۃ توبہ۔
اس سے اندازہ ہم لوگ کر سکتے ہیں کہ آخرت میں ہمیں ایسے ہی عذاب ہوں گے۔ منکرین مجرم تو سیدھے ہی جہنم میں جائیں گے۔ منافقین بھی جہنم میں جائیں گے۔ جو لوگ ایمان لائے اور خلوص کے ساتھ شریعت پر عمل کرتے رہے، لیکن غلطیاں ہوئیں اور توبہ نہیں کی تو پھر ہم لوگوں کو بھی ایسا ہی معاملہ ہو گا جو ہمارا معاملہ بھی ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا ہی ہو گا انشاء اللہ۔ باقی ہم لوگوں میں جو ساتھ توبہ بھی کرتے رہے اور اپنی اصلاح کرتے رہے تو پھر صابقون الاولون صحابہ رضی اللہ عنہم کے قریب تک ہو جائیں گے انشاء اللہ۔
سورۃ التوبہ تو ہی آخرت کی سزا کو پریکٹیکل موجودہ زندگی میں کر کے دکھا دیا۔ اس سے ہم لوگ اپنے خلوص کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔
جعلی احادیث تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ محدثین نے ہر کتاب میں پہلی حدیث یہی بیان کی کہ جس نے جعلی حدیث بیان کی تو اسے سزا ضرور ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت احتیاط کی کہ وہ کوئی جعلی حدیث نہ کریں۔ اگلی جنریشن میں کئی لوگوں نے فرقہ واریت یا سیاست یا پھر تبلیغ کے لیے جعلی احادیث بھی شروع کیں اور کتنا بڑا گناہ انہوں نے کیا ہے۔
اس میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ قابل اعتماد اور جعلی احادیث کو کیسے چیک کریں۔ یہ کتاب میں نے ایجاد نہیں کی بلکہ محدثین ریسرچرز کے کام کا طریقہ کار بیان کیا ہے۔ آپ چاہیں تو کتاب میں پڑھ لیجیے ورنہ پھر محض لیکچرز میں سن سکتے ہیں۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1VXuUWeZ-p4Lukd1Y12T-GNT58h8cnMi-
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com