سوال: سورتوں کی ترتیب نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد دوسری سورتوں کی ترتیب کیا ھہنی چاہیے؟ مسجد کے امام کہہ رہے تھے کہ یا تو ترتیب میں پڑھیں جیسا کہ اگر سورۃ الکافرون پڑھی ہے تو اگلی رکعت میں سورۃ النصر پڑھیں۔ یا پھر طاق آداب میں یعنی کہ سورۃ الکافرون کے بعد اگلی رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھیں۔ یعنی پہلی رکعت میں جو سورۃ پڑھی اس کے بعد اگلی رکعت میں دو سورتیں چھوڑ کے پڑھیں۔ اس کے بارے میں رہنمائی کر دیجیے۔ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: امام صاحب نے جو فرمایا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اس میں یہ عرض کر دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کا جواب کچھ نہیں فرمایا ہوا ہے۔ اس لیے آزادی ہے کہ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ امام صاحب نے لاجیکل طریقے سے سوچا ہے کہ ترتیب سے سورتوں کی تلاوت کرنی چاہیے بالخصوص نماز کے اندر۔ اگر اس سورت کی تلاوت کرنے کے بعد اگلی یاد نہیں ہے تو پھر زیادہ اچھا ہے کہ آپ دو سورتیں چھوڑ کر چوتھی سورت میں شروع کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذرا نامعقول سی حرکت بن سکتی ہے کہ ایک سورت کیوں چھوڑ کر اگلی میں آئے ہو۔
اوور آل دین میں پابندی نہیں ہے بلکہ آپ خود لاجیکل طریقے سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آپ کو زیادہ جس طرح آسان محسوس ہو۔ میں نے تو سورۃ الشمس سے لے کر آخر تک سورۃ الناس تک یاد کیا ہوا ہے۔ اس لیے ترتیب سے ہی نماز میں تلاوت کرتا ہوں تاکہ یاد رہے۔ آپ اپنی صورتحال کے ساتھ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو کیا آسانی ہے۔
سوال: اسلامک ناول جیسا کہ داستان ایمان فروشوں کی کیا یہ پڑھنا ٹھیک ہے اور کیا یہ حقیقت ہوتی ہے یا فرضی کہانی ہے؟
جواب: اس میں کسی کتاب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں عام طور پر اسکالر نے شروع میں ہی تعارف کروا دیتے ہیں اور پھر انہوں نے سارے ابواب کا نام لکھا ہوا ہے۔ اس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کتاب پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ ناول میں عموماً لوگوں نے اس لیے لکھی ہوئی ہیں تاکہ سٹوڈنٹ کو آسانی سے تاریخ یا کسی اور معاملے میں کہانی سے دلچسپی نوجوانوں کو دلچسپی ہو تو وہ مطالعہ کریں۔ جہاں تک یہ کتاب داستان امان فروشوں کی بہت دلچسپ کتاب ہے۔
خاص طور پر چھٹی صدی ہجری میں جب یورپی اقوام نے فلسطین کو فتح کیا اور اپنی حکومتیں بنا دیں۔ اس وقت مسلمانوں کے قریب جو چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں، ان کی یورپیوں کے ساتھ جنگیں ہوئیں جسے عیسائی علماء نے اپنے لوگوں کو صلیبی جنگیں کہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یروشلم میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت وہیں سے شروع ہوئی تھی۔ عیسائی چاہتے تھے کہ یروشلم جسے مقدس زمین سمجھتے ہیں، وہ اس پر قبضہ کر لیں۔ اس میں مسلمانوں میں سب سے اہم ترین شخصیت صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کی یورپی اقوام کے ساتھ جنگیں زیادہ ہوئیں۔
اب یورپی اقوام نے مسلمانوں کو اپنا ساتھی بنایا تاکہ صلاح الدین ایوبی کو ناکام کر سکیں۔ اس کتاب میں اسکالر داستان امان فروشوں کی کی صورتحال بتا دی ہے۔ اس لیے یہ دلچسپ ناول جیسی شکل ہو گئی ہے۔ آپ ضرور پڑھیں ، اس میں آپ کو مسلمانوں کی غلطیاں سامنے آئیں گی۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ آپ تعمیر شخصیت میں ان غلطیوں سے بچ سکیں گے۔ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ میری تاریخ کی کتابیں پڑھیے گا۔
سوال: میرے ایک بھانجے اور بھانجی ہیں جنکی عمر ۱۱ سال اور ۸ سال ہے۔ وہ دونوں بہت زیادہ ضد کرتے ہیں۔ سب پریشان ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتا دیں کیسے انکو ٹھیک کریں؟
جواب: ان بھانجوں میں ایسا لگتا ہے کہ ان کی پرورش جہاں ہوئی ہے، اس گھر ، محلہ اور اسکول میں ماحول خراب ہو گا۔ اس لیے بچوں میں سن سن کر عادت بن گئی اور پھر وہ گالیاں کرنے لگے ہیں۔ اب اس کے کئی حل ہو سکتے ہیں، جس میں اپنی صورتحال دیکھ کر خود فیصلہ کر لیں۔
ان بچوں کے والدین جب بھی گالیاں آپس یا بچوں سے کر چکے ہیں، اس میں ان بچوں کے سامنے آپس میں گالیوں کی معذرت خود کر لیں۔ اس سے بچوں میں خیال آ جائے گا کہ ان کے والدین کی غلطی تھی۔
ان بچوں پر پریشر بالکل نہ کریں۔ جبر کر کے پریشر کرنے سے بچے منافق بنتے ہیں۔ وہ سامنے تو اچھے لگیں گے اور جب والدین سے چھپیں گے تو پھر وہی عادت گالیوں اور دیگر بری حرکتوں پر کریں گے۔ اس لیے ان پر غلطیوں کو معاف کرنا شروع کر دیں۔ یہ بچے جو بھی چاہتے ہیں، ویسا ہی مان لیں۔
اگر ممکن ہو تو ان بچوں کے قریب رشتوں میں جہاں زیادہ محبت پائی جا سکتی ہے، ان بچوں کو کچھ دن کے لیے اس گھر میں رکھیں۔ مثلاً ان بچوں کو زیادہ پیار دادا دادی کرتے ہیں، تو ان کے گھر میں رکھیں۔ اگر بچوں کو زیادہ پیار نانا نانی سے ملتے ہیں یا چچا چچی، یا ماموں ممانی سے پیار ملتا ہے، ان کے گھر میں جتنے دن تک ممکن ہو، وہاں تک ان بچوں کو رکھیں۔
پھر انہی سے مشورہ لیں کہ ان بچوں کی غلطی کو کیسے ٹھیک کریں۔ وہ آپ کو مزید آئیڈیاز دیں گے کہ ان بچوں کی بری حرکتوں کو کیسے ٹھیک کریں۔ لیکن ان بچوں کی بری حرکتوں پر مارنا پیٹنا یا انہیں چیخ کر چپ نہ کروائیں ورنہ ان میں زیادہ ضد آتی رہے گی۔
اگر اس محلے کا ماحول غلط ہے تو والدین کو چاہیے کہ وہ کوشش کریں کہ کسی مزید اچھے محلے میں رہنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح بچوں کے اسکول کا ماحول برا ہے تو پھر اس اسکول کو چھوڑ کر بچوں کو دوسرے اچھے اسکول میں پہنچا دیں۔
آپ نے شاید اپنے ماحول کو تجربہ دیکھ چکے ہوں گے، جس میں آپ کو فیملی کے لوگ پیار کرنے کی بجائے سختی کرتے ہیں، اس سے آپ کو کتنا برا لگتا ہے کہ آپ گھر سے جانا چاہتے ہیں۔ یہی شکل ان بچوں کی ہو سکتی ہے۔ اس لیے سختی کبھی نہ کریں بلکہ پیار پیار سے آہستہ آہستہ سمجھاتے جائیں۔ سمجھانا روز نہ کریں بلکہ جب یہ بچے سننے کو تیار ہوں اور خوش ہو رہے ہوں تو اسی وقت چھوٹا سا آئیڈیا کہانی کی شکل میں سنا دیں۔ بچے ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے والدین کو کئی سال تک یہ کوشش کرنی ہو گی۔
کچھ طریقے آپ کے پاس مختصر تحریروں میں لکھے ہوئے ہیں۔ کوشش کریں کہ آپ انہی بچوں کے والدین کو یہ پڑھانے کی کوشش کریں۔ اس میں آپ خود سرچ کریں کہ بچہ، بچوں، اولاد سب الفاظ پر سرچ کریں تو بہت سے تحریریں موجود ہیں۔ اس سے والدین کا طریقہ بہتر ہو گا تو پھر بچوں پر بھی اچھے اثرات آئیں گے انشاء اللہ۔
اس میں ماڈیول کے پہلے باب میں یہی موضوع ہے۔
ماڈیول PD04: تعمیر شخصیت : ۔۔۔ معاشرتی پہلو
تخلیق کے عمل کے دوران والدین کا رویہ
شیر خوار بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟
گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟
بچوں کو نماز کی عادت کیسے ڈالی جائے؟
بچوں میں شرم و حیا کیسے پیدا کی جائے؟
برائی میں مبتلا بچوں سے کیسا رویہ رکھا جائے؟
اپنی اولاد کے معاملے میں عدل و احسان سے کام لیجیے
جوان ہوتے بچوں کی سیرت و کردار کی تعمیر
تخلیق کے عمل کے دوران والدین کا رویہ
سوال: میں رکوع اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی اور سبحان ربی العظیم کے ساتھ وبحمدہ کا اضافہ کرتا ہوں۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟
جواب: بالکل ٹھیک ہے۔ رکوع اور سجدہ میں آپ مزید اضافہ کرنا چاہیں تو ضرور کر لیں اور اندر دعا بھی کر سکتے ہیں۔ میں خود بھی کافی طویل دعائے حاجت سجدہ کے اندر کر لیتا ہوں۔
سوال: اگر ہم کسی کے ساتھ اھسان کریں تو اگر ہم وہ احسان جتلائیں تو ہمارے وہ نیکی ضائع ہو جاتی ہے؟ لیکن بار بار میرے ذہن میں یہ عجیب سوال آتا ہے کہ اللہ تعالی نے تو قرآن میں بہت فرمایا ہے کہ میرے احسان کو یاد کریں۔ تو اسکی ذرا وضاحت کر دیجیے۔
جواب: جب بھی ہم کسی کی خدمت کرتے ہیں تو اس کا اجر تو ہمیں کنفرم مل جاتا ہے۔ احسان جتانا ایک گناہ ہے جو اس کے ساتھ ہے۔ اس میں پھر یہی ہوتا ہے کہ جیسے کھیل میں آپ کرکٹ میں 100 اسکور لے لیے لیکن پھر دوسری ٹیم نے بھی 100 اسکور کر لیے تو کوئی بھی نہیں جیتا ہے بلکہ برابر ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ہے کہ آپ نے اجر لے لیا، لیکن احسان جتا لیا تو اگلے نے احسان کر دیا تو آپ کا اسکور برابر ہو گیا۔ پھر زیادہ پھر بھی احسان مانگتے جائیں تو گناہ اور زیادہ ہو جائے گا اور ان صاحب کا اسکور زیادہ ہو جائے گا۔
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ احسان کیوں گناہ ہے جبکہ اللہ تعالی نے احسان کیوں جتایا ہے؟ اللہ تعالی کا صرف ذاتی حق ہے، جسے ہم استعمال کریں تو پھر ہمیں گناہ ہوتا ہے۔ مثلاً تکبر کہ اللہ تعالی صرف اور صرف اللہ تعالی ہی بہت بہت بہت بڑا ہے اور اللہ تعالی اپنی خوشی کے لیے اپنا احسان نہیں بتا رہا بلکہ لوگوں کو صورتحال سمجھا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ اللہ تعالی کی عنایت کو بھول گئے تھے اور اس میں غور ہی نہیں کرتے تھے، اس لیے انہیں یاد کروانے کے لیے اللہ تعالی نے احسان بتا دیا تاکہ ان کے اچھے لوگوں کو یاد آ جائے۔ اسی طرح اللہ تعالی سب سے بڑا ہے تو پھر اللہ تعالی خوش ہونے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہمیں صرف سمجھا دیا ہے۔
اب انسان جب دوسرے انسان کی نسبت اپنے آپ کو بڑا بنانے کی کوشش کرتا ہے اور احسان جتاتا ہے تاکہ اگلا اس کا ملازم بن جائے تو پھر یہ گناہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی رقم نہیں ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالی ہمیں طاقت کے ساتھ دے دیتا ہے۔ پھر ہم اگر کسی دوست کو ان کی مدد کے لیے زکوۃ کی رقم دے دیتے ہیں تو انہیں اپنا ملازم یا غلام نہیں بنانا چاہیے کیونکہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس تو رقم ہی نہیں تھی لیکن اللہ تعالی نے دی ہے۔
گناہ اس صورتحال میں زیادہ گناہ ہو جاتا ہے جب ہم دوسروں کو احسان جتائیں تو اسے دل میں دکھ ہو۔ اس کا آپ تجربہ خود کر لیجیے کہ آپ کے کوئی دوست آپ کو 100,000 روپے دے کہ آپ کی تعلیم ہو جائے۔ آپ خوش ہوں گے اور اس کی عزت کریں گے۔ لیکن وہ دوست اب آپ کو اپنا ملازم اور ذلیل کروانا شروع کرے تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟ آپ کو کتنا دکھ ہو گا، اور اگر آپ کے پاس ابھی تعلیم نہیں کی اور رقم پاس ہے تو آپ اس کے منہ پر واپس دے دیں گے تاکہ وہ کبھی ذلیل نہ کرے۔ اس دکھ کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہمیں بتایا ہے کہ دوسروں کو دکھ کرنا ہی گناہ ہے۔
اب اللہ تعالی نے اپنی عنایت بنی اسرائیل کو دی ہوئی تھی کہ وہ 1000 قبل مسیح کے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن گئے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ ہے۔ لیکن انہوں نے اس عنایت کو بھول گئے یا پھر یاد تھا، تب بھی اسے اہمیت نہیں کر رہے تھے۔ اللہ تعالی نے یہی بتایا کہ آپ کو اتنی عنایت دی تھی، تو اسے اہمیت کیوں نہیں دیتے ہیں۔ اس کی بجائے آپ ابھی اللہ تعالی سے توبہ کر لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں تو آپ کو دوبارہ وہی سپر پاور بنا دوں گا۔ اللہ تعالی نے اس وجہ سے انہیں یاد کروایا تھا۔ واقعی جو بنی اسرائیل ایمان لائے تو وہ بھی اس سپر پاور کا حصہ بن گئے۔ مثلاً ان کے بڑے عالم عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بھی حکومت کا حصہ بن گئے اور وہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کو مشورہ بھی دیتے رہے۔
اب آپ دیکھیے کہ آپ کے دوست نے آپ کو 100,000 روپے دیے اور تعلیم ہو گئی او رمشکلات حل ہو گئیں۔ اس دوست نے کبھی بھی آپ کو احسان نہیں جتایا ہے بلکہ آپ کو اسی طرح اپنا بھائی سمجھ رہا ہے۔ آپ کو کوئی دکھ نہیں ہو گا بلکہ جب آپ آمدنی حاصل کریں گے تو آپ اسی دوست کو واپس دے دیں گے۔ پھر فرض کریں کہ دس سال بعد آپ کے دوست کو معاشی مشکلات آ گئی ہیں اور آپ سے عاجزی کے ساتھ درخواست کر رہا ہو کہ پلیز یہ مدد کر سکتے ہیں جبکہ میں بھی مشکل ٹائم میں آپ کی خدمت کی تھی؟ آپ کے پاس اچھی آمدنی آ رہی ہے تو آپ خود سوچ لیں کہ آپ کیا کریں گے؟
اللہ تعالی نے یہی کیا تھا بنی اسرائیل کے لیے کہ صرف یاد کروا کر کے انہیں بتایا کہ یہ نعمت دی تھی تو اب اتنا کریں کہ آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں تاکہ آپ کو زیادہ اجر اسی زندگی میں مل جائے اور آخرت میں آپ کامیاب ہو جائیں۔ اب آپ اپنے رویے اور اللہ تعالی کے رویے پر غور کریں کہ کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ اس محسوس پر مجھے بتائیں تو میں اس میں مزید جواب دوں گا انشاء اللہ۔
سوال: جب منیجر ذلیل کرتے ہیں اور ہمٰں دکھ آتا ہے۔ اس میں بہت سے خیالات آتے ہیں جیسے کہ ہمیں کہا جائے کہ تم بیکار ہو وغیرہ تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ (ایک دوسرا دوست)
جواب: ایسی حالت میں نارمل طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ خود کو دکھ اور غصہ آ جاتا ہے۔ اس میں اگر آپ باہر جا کر کوئی بھی نوکری مل جائے تو پھر آپ باہر جا سکتے ہیں۔ ویسے ہی آپ چلے گئے تو کچھ دن میں زیادہ مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ پھر باہر جا کر کھانا بھی نہیں ملے گا اور کہیں رہ بھی نہیں سکیں گے۔ اس میں پھر کئی دہشت گرد وغیرہ ایسے لڑکوں کو استعمال کرتے ہیں اور انہیں اغوا کر کے تربیت کرتے ہیں۔ پھر انہی لڑکوں کو انجکشن وغیرہ لگا کر ایسا پاگل کر دیتے ہیں کہ وہی لڑکے کسی مسجد یا کسی اور جگہ جا کر خود کش حملہ کرتے ہیں۔
اس لیے آپ سب سے پہلے یہی کوشش کریں کہ جیسی بھی چھوٹی نوکری مل جائے تو کچھ دن کے لیے آفس سے باہر چلے جائیں اور اتنے دن تک اسی دکان یا کسی دوست میں رہ لیں۔
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com