سوال: اسی طرح ایک عورت ہے اسکا شوہر فوت ہو گیا ہے، وہ عورت نوکری کر کے گھر کا نظام چلاتی تھی۔ مکان انکا کرائے کا ہے۔ شوہر کی وفات پے مولوی صاھب آئے اور بولا کہ اب اپ گھر سے باہر نہیں جا سکتیں۔ تین مہینے عدت میں بیٹو۔ وہ عورت اکیلی کمانے والی ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، مکان کا کرایہ دینا ہے۔ اب اس صورتحال میں وہ کیا کریں۔ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: ان مولوی صاحب نے قرآن مجید اور صحیح احادیث کی بنیاد پر مشورہ دیا ہے تو پھر قرآن مجید کی سورۃ اور آیات کا نمبر اور صحیح احادیث بیان فرمائیں۔ اگر یہاں سے ثابت ہو جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ دین کا حکم ہے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر ان مولوی صاحب نے محض اپنا مشورہ ہی دیا ہے۔ یہ خاتون خود فیصلہ کر سکتی ہیں کہ وہ کیا کریں۔
قرآن مجید میں بیوہ خاتون پر 4 ماہ اور 10 دن کی عدت ہے تاکہ اگر پیٹ میں کوئی بچہ ہے تو وہ واضح ہو جائے۔ عدت کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس 130 دن میں دوسری شادی نہ کریں اور مزید کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس خاتون پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ آپ سورۃ النساء اور سورۃ البقرۃ میں عدت کے احکامات کو پڑھ سکتے ہیں۔
انڈیا کے کلچر میں لوگوں نے زبردستی قسم کی پابندیاں ایجاد کی ہیں جس میں گھر سے باہر نہ جانا، برے کپڑے پہننا وغیرہ۔ یہ سب ہندو مذہب میں بیوہ خواتین کے لیے کیا ہوا ہے جو کسی نبی کے ارشادات نہیں ہیں بلکہ ان کے کسی جاگیردار یا پنڈت نے ایجاد کی ہے۔ وہ ہندو خواتین بیچاریاں تو بیوہ ہو جائیں تو وہ اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ خود ہی آگ میں مر جاتی ہیں جسے ستی کہتے ہیں۔ اگر وہ بیچاریاں نہ مریں تو ان کی دوسری شادی ممکن نہیں ہوتی ہے خواہ وہ بالکل نوجوان لڑکی ہوں۔ پھر وہ بیوہ خواتین کو آشرم میں رہتی ہیں جہاں ان کے پنڈت انہی کو طوائف بنا دیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ انڈیا کے انسپکٹر احمد یار خان صاحب کی تحریر یا آڈیو میں سن سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہی معاملہ ہوا کہ جب ہندو پنڈت، مسلمان مولوی ہو گئے تو انہوں نے اپنی جاہلیت کی پرانی عادت کو جاری رکھا۔ اس لیے مسلمانوں میں بیوہ خاتون پر ایسی سخت پابندیاں لگا دیں جو ہندوُوں کے ہاں موجود ہے۔ بہت سی مسلمان بیوہ خواتین کو دوسری شادی بہت مشکل ہو گئی ہے جو قرآن مجید اور سنت نبوی کے بالکل خلاف ہے۔ آپ خود احادیث میں پڑھ سکتے ہیں کہ کوئی صحابی شہید ہوئے یا نارمل فوت ہوئے تو ان کی بیگم صرف 130 دن کے بعد فوراً شادی ہو جاتی تھی۔
اس کی مثال آپ دیکھیے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو عدت کے بعد ان کی بیگم اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی شادی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہو گئی۔ اس کے چند سال بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو انہی بیگم کے پیٹ میں بچہ تھا۔ چنانچہ ان کی عدت یہ ہوئی کہ بچہ جب پیدا ہو گیا تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شادی ہو گئی اور محمد بن ابوبکر کی پرورش علی رضی اللہ عنہ نے کی ہے۔
اس سے آپ دیکھیے کہ خواتین کو کتنی آزادی موجود رہی ہے۔ اسی طرح سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کی شادی زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔ پھر ان کی زندگی ایسی گزری کہ زبیر رضی اللہ عنہ کھیت پر کام کرتے اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اونٹ اور جانوروں کو چراتی رہتی تھیں جس کے لیے انہیں گھر سے نکلنا ہی پڑتا رہا تھا۔
سوال: میرے ذہن میں بار بار یہ سوال آتا ہے کہ جب ایک مرد عورت کی طلاق دے تو اور پھر دوبارہ اس سے شادی کرنا چاہے تو اس کے لیے عورت کا پہلی کسی اور مرد سے شادی کرنا لازمی ہے؟ اور ادھر سے طلاق لے کر پھر پہلے والے شوہر سے شادی کر ساکتا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ پہلے شوہر سے طلاق کے بعد دوبارہ اسی سے شادی کیوں نہیں کر سکتی؟
جواب: آپ کا بہت ہی دلچسپ سوال ہے اور اس پر میں تفصیل سے اپنی کتاب میں لکھ چکا ہوں اور لیکچرز پر تفصیلی ڈسکشن کی ہے۔ پلیز آپ میرے لیکچرز میں سن لیجیے، پھر ڈسکشن کرتے ہیں۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1AiWnZN0yBq-VGbYeJSZNjCZNB027ZxPd
طلاق سے متعلق دین کے احکامات
FQ27-The Law of Divorce in Islamic Jurisprudence
طلاق سے متعلق دین کے احکامات ۔۔۔ فقہاء میں اجتہاد اور اختلافات
FQ28-The Law of Divorce in Islamic Jurisprudence – Social Implications
تین طلاق سے متعلق فقہاء کا نقطہ نظر
FQ35-Three Time Divorce in Muslim Jurisprudence (Fiqh)
مختصراً عرض کر دیتا ہوں کہ دین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ شوہر یا بیوی دونوں ہی طلاق کر سکتے ہیں۔ اس میں بیوی کو بس اتنا ہی فرق ہے کہ وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے گی۔ شوہر اگر طلاق نہ دے تو پھر فیملی کورٹ میں چلی جائے اور طلاق لے لے۔ شوہر میں فرق یہ ہے کہ وہ خود طلاق دے سکتا ہے۔ دونوں میں فرق اس وجہ سے ہے کہ شوہر پر معاشی ذمہ داری ہے۔ شادی اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو پوری عمر کے لیے معاشی خدمت کرتا رہے گا۔ اس میں کم از کم اس بیوی کو گھر، کھانا، لباس، میڈیسنز اور دیگر اخراجات شوہر دیتا رہے گا۔
نکاح ہو گیا لیکن کچھ عرصے بعد بیوی اگر اس گھر، کھانا، لباس، میڈیسنز وغیرہ پر کوئی لینا نہیں چاہتی اور وہ طلاق لینا چاہتی ہے تو اگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی تو بات ختم اور طلاق ہو گئی۔ لیکن رخصتی ہو گئی اور کئی مہینے، سال تک رہی ہے اور بچے پیدا ہو گئے ہیں۔ اس دوران شوہر سارے اخراجات کرتا رہا ہے تو ایک سیکنڈ میں ہی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے حکومت کی فیملی کورٹ میں طلاق ہو سکتی ہے۔ اس میں کمپلی کیشن اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اب بچوں کی خدمت کون کرے؟ شوہر نے بیگم کو گھر دے دیا ہے اور مزید بہت زیادہ مہنگا تحفے دیتا رہا ہے، اس میں طلاق میں کیا کیا جائے؟
آپ خود فیصلہ کر لیجیے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیجیے کہ آپ کی شادی ہو گئی ہے اور 10 سال گزر چکے ہیں۔ اتنے 10 سال تک آپ نے بیگم کو ایک کروڑ روپے کا گھر تحفے میں دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ زیورات اور سونا بھی 50 لاکھ روپے دے چکے ہیں۔ ابھی آپ کے تین پیارے بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ بیگم آپ سے طلاق لینا چاہتی ہے۔ اب ڈیڑھ کروڑ روپے کا کیا کریں اور ان بچوں کی خدمت کا کیا کریں؟ اس کا جواب بیگم نہیں دے رہی ہے اور جواب دے رہی ہے تو آپ مطمئن نہیں ہیں؟ پھر بیگم کو ایک دو سیکنڈ کے اندر طلاق ہو جانی چاہیے یا پھر طویل عرصے کے لیے گفتگو اور مذاکرات کرنے کے بعد طلاق ہونی چاہیے؟
اب آپ کا سوال یہ پیدا ہو گا کہ طویل عرصے میں فیصلہ ہونا چاہیے لیکن پھر بیگم ہی کیوں؟ شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو اسے بھی اسی طرح طویل عرصے میں ہی فیصلہ کرنا چاہیے تو ایسا کیوں نہیں ہے؟ آپ کے سوال کا جواب اللہ تعالی نے سورۃ طلاق 65 میں دے دیا ہے کہ شوہر نے ایک دو منٹ میں فیصلہ نہیں کرنا ہے بلکہ تین ماہ بلکہ اس سے زیادہ مہینوں تک کے لیے آپ لٹک گئے ہیں۔ آپ سورۃ الطلاق اور پھر سورۃ البقرۃ کے یہ لیکچرز بھی سن لیجیے۔
سورۃ الطلاق 65 ۔۔۔ ایمان اور تعمیر شخصیت ۔۔۔۔ فیملی کے ادارے کی مشکلات کا حل ۔۔۔ طلاق کی صورت میں شریعت کا قانون
آیات 1-12: عدت کا طریقہ کار ۔۔۔ طلاق کے دوران اخراجات کی ذمہ داریاں
Judgement & Trial Period
سوشل اسٹڈیز سے متعلق احکامات ۔۔۔ خدمت کا طریقہ کار، نکاح، طلاق اور وفات کا قانون
اب آپ کے ذہن اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوبارہ شادی میں دوسری شادی کر کے پھر پہلے شوہر پر جا سکتی ہے تو کیوں؟ اس میں سورۃ طلاق میں اللہ تعالی نے بتا دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی واضح کر دیا ہے کہ ایک بار ہی طلاق دے سکتے ہیں۔ اب شوہر دوبارہ اسی بیگم سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس بیگم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ چاہے تو پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے اور چاہے تو نہیں۔ وہ بالکل آزاد خاتون ہے اور خود ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ طلاق بھی محض جذباتی طور پر غصے میں نہیں کرنی ہے بلکہ ڈھنڈے ذہن کے ساتھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے۔
شوہر یا بیگم نے ایک بار طلاق کی، لیکن ابھی عدت جو تقریباً تین ماہ یا 80 دن کی ہوتی ہے اور اس میں بیگم گھر نہیں چھوڑے گی۔ اس دوران میاں بیوی کو اپنی غلطی واضح ہو گئی ہے تو اس پورے عرصے میں کسی وقت طلاق کو کینسل کر سکتے ہیں۔ اگر کینسل کر دیا تو معاملہ ختم اور کوئی دوسری شادی نہیں ہوئی۔ وہ میاں بیوی نارمل طریقے سے رہ سکتے ہیں۔ اب رہتے ہوئے، پھر 4 سال بعد دوبارہ طلاق کا ارادہ بنا ہے تو پھر وہی پراسیس ہو گا خواہ شوہر کرے یا بیگم۔ اس میں پھر عدت ہو گی اور پھر بھی آپشن موجود ہے کہ اسے کینسل کر سکتے ہیں۔ عدت پوری ہو گئی، تب بھی سابقہ شوہر اور بیگم دوبارہ شادی اگر کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ دونوں کو آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی وقت بھی دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالی نے یہ لمٹ کر دی ہے کہ دو مرتبہ آپ طلاق کر چکے ہیں تو پھر مزید کئی سال بعد تیسری مرتبہ طلاق دی تو بات ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ اب شوہر یا بیگم مزید تیسری مرتبہ طلاق کو کینسل نہیں کر سکتے بلکہ ہمیشہ کے لیے وہ نہیں رہ سکتے ہیں۔ اب دوبارہ شادی بھی نہیں کر سکتے کہ یہ مذاق ہی رہ جائے گا۔ اتنے سالوں میں تین مرتبہ طلاق کر چکے ہیں تو پھر نہیں۔ اگر خاتون پھر دوبارہ اس پرانے شوہر سے کرنا چاہتی ہے تو وہ نہیں کر سکتی ہے۔ وہ کسی اور آدمی سے شادی کرے اور نارمل طریقے سے رہیں۔ دوسرا شوہر اگر کسی وقت ایسا حادثہ ہوا اور وہ شوہر نے اس بیگم کو طلاق کر دی ہے یا وہ دوسرا شوہر فوت ہو گیا تو یہ محض اتفاق سے ہوا ہو۔ پھر وہ بیگم اپنے پہلے شوہر کے لیے شادی دوبارہ کر سکتی ہے ورنہ وہ چاہے تو تیسرے آدمی سے شادی کسی وقت بھی کر سکتی ہے۔
آپ کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے ہیں، وہ اس وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگ ایک ہی سیکنڈ میں غصے اور جذباتی طور پر تین طلاق کر کے فارغ کر دیتے ہیں اور پھر عقل آتی ہے تو وہ اسے کینسل کرنا چاہتے ہیں۔ اسے آپ جاہلیت والی طلاق کہہ سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایسی غصے اور جذباتی جیسی حالت ہوتی اور ایک، دو، تین، ہزار طلاق کا لفظ کہہ دیا تو اسے طلاق نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ محض بکواس ہی تھی۔ جس نے سچ مچ سوچ سمجھ کر طلاق دے تو پھر طلاق ہوتی ورنہ یہ جذباتی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکومت میں بھی یہی طریقہ کار جاری رہا۔
جب عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت بنی تو کافی عرصے بعد ان کے پاس بہت سارے ایسے مقدمے آئے۔ انہوں نے یہ فرمایا کہ آئندہ اگر کسی نے ایسی بکواس کی تو پھر اسے میں قانونی طور پر قانونی طلاق کروا دوں گا۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ لوگ ایسی بکواس آئندہ نہ کرے۔ چنانچہ عرب لوگوں کو پھر عقل آ گئی اور مزید ایسی بکواس نہیں کرنے لگے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات کے بعد اگلی نسلوں میں حکومتوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو جاری کیا اور آج تک موجود ہے۔
اب ہمارے ہاں انڈین کلچر سے لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ہندومت کی عادت جاری رہی کہ وہ جاہلیت میں جیسے تین طلاق کہہ کر بکواس کرتے رہے اور آج تک ہے۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں طلاق ہو جاتی تو خاتون کو کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ان کے پاس 10-20 لوگوں کا پیغام آ جاتا کہ وہ نارمل شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خاتون کر لیتیں او ردوسرے شوہر کے ساتھ ساری عمر رہتی تھیں۔ لیکن انڈین کلچر میں وہی جاہلیت پاکستان اور انڈیا میں جاری رہی ہے۔ خاتون پر طلاق ہو جاتی ہے تو پھر اس کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا کہ وہ کسی سے دوسری شادی کر سکیں۔
اس کے نتیجے میں کئی مولویوں نے حلالہ کرنا شروع کیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمایا تھا کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔ اس کا صحیح حل یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو بکواس کے طور پر تین طلاق کہتا تو اسے کوئی طلاق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی پر عمل کرتے اور حکومت کو چاہیے تھا کہ ایسے شوہر کو کوئی کوڑا یا جیل یا چالان وغیرہ سزا بھی مل جاتی تو خواتین کا مسئلہ حل ہو جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وجہ سے سزا کے طو رپر فیصلہ فرمایا تھا کہ آئندہ کسی نے بکواس کی تو میں اسے طلاق ہی مان لوں گا۔ اب اس سزا کا الٹا اثر پیدا ہو رہا ہے تو مزید کوئی اور سزا دینی چاہیے۔ آپ اس کی تفصیل میری کتاب اور لیکچرز میں پڑھ لیجیے۔ پھر جو سوالات پیدا ہوں تو ضرور بھیج دیجیے۔
سوال: اللہ تعالی تک پہنچنے کا شارٹ کٹ کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالی تک پہنچنے کا شارٹ کٹ یہ ہے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس میں جو احکامات سمجھ آئیں، اسی پر عمل کریں تو آپ اللہ تعالی تک پہنچ گئے ہیں۔ آپ نے اب تک جتنا پڑھا ہے، اس پر عمل کر رہے ہیں تو سچ مچ آپ “ولی اللہ” بن چکے ہیں یعنی آپ اللہ تعالی کے دوست بن چکے ہیں۔
رہی اللہ تعالی سے ملاقات تو اس کے لیے اللہ تعالی نے آخرت میں فیصلہ فرمایا ہوا ہے کہ سب وقت ملے گی۔ کئی بے وقوف لوگ خودکشی کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی تک پہنچ جائیں۔ یہ خودکشی بہت بڑا گناہ ہے جس سے اللہ تعالی سے کبھی نہیں پہنچ سکتے بلکہ جہنم تک چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اپنی زندگی جتنی اللہ تعالی نے ٹائم لائن طے کی ہے، اس ٹائم تک انتظار کریں اور جس طرح آپ ولی اللہ یعنی اللہ تعالی کا دوست بن چکے ہیں۔ اب اسے منٹین کریں تو ملاقات ہو جائے گی انشاء اللہ۔
سوال: ہمیں کیسے پتہ چلے کہ اللہ سے ہم سے راضی ہے؟
جواب: اس کا جواب اللہ تعالی نے سورۃ القیامۃ 75 میں دے چکا ہے۔ اس میں آپ کے ذہن کے اندر موجود ہے جسے “نفس لوامہ” کہا جاتا ہے۔ جب بھی آپ قرآن مجید پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو موجودہ ثبوت یہ مل جاتا ہے کہ آپ کے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے۔ اگر قرآن مجید کے کسی حکم پر عمل نہ ہو تو بہت دکھ پیدا ہوتا ہے جس میں آپ توبہ کرتے ہیں۔ بس یہی امتحان ہے جس میں آپ موجود ہیں۔ اسی کو نفس لوامہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو نیکی پر خوشی اور برائی پر دکھ۔
اس کی مثال آپ خود دیکھ لیجیے۔ کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ آپ نے کسی بچے یا دوست یا والدین یا بھائی بہن میں کوئی تکلیف پیدا ہوئی تو آپ نے بھاگ کر ان کی تکلیف درست کی۔ مثلاً آپ کی والدہ بیمار ہوئی تو آپ انہیں ہاسپٹل لے گئے ہیں۔ جب طبیعت ٹھیک ہوئی تو آپ کے دل میں بہت سکون اور خوشی پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح آپ کو کبھی یاد نہیں رہا اور ایک نماز چھوٹ گئی تو بہت دکھ پیدا ہوا ہو گا اور آپ نے توبہ کر کے قضا کر کے نماز پڑھ لی ہو گی۔ یہی نفس لوامہ آپ کے ذہن میں چل رہا ہے۔ یہ خوشی زیادہ ہے تو آپ اللہ تعالی کے دوست بن چکے ہیں۔ گناہ پر زیادہ دکھ ہی آتا رہا ہے اور آپ توبہ کرتے رہے ہیں تو یہ بھی کنفرم ہو گیا کہ آپ اللہ تعالی کے دوست بن چکے ہیں۔ اب اللہ تعالی نے گارنٹی کر دی ہے کہ اللہ تعالی آپ پر راضی ہے۔
سوال: حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو شیطان نے بہکایا تھا تو شیطان کو کس نے بہکایا تھا؟
جواب: انسان اور جنات میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ نیکی کریں یا برائی۔ برائی اس وجہ سے شیطان میں پیدا ہوئی کہ وہ اپنی حکومت کو زمین میں قابو رکھنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالی نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ زمین میں جنات کی حکومتیں ختم ہو رہی ہیں اور اب انسان کو یہاں کی حکومت ملے گی۔ اس پر شیطان نے اپنے ذہن میں اللہ تعالی کے خلاف انکار کر دیا اور وہ انسان سے دشمن بن گیا۔
اب آپ کا سوال پیدا ہو گا کہ پھر اللہ تعالی نے شیطان کو فنا کیوں نہیں کیا تاکہ انسان گمراہ نہ ہوتا۔ اللہ تعالی نے اس لیے شیطان کو زندہ رکھا تاکہ انسانوں کا امتحان سامنے آ جائے۔ وہ پرانا شیطان تو مر کھپ گیا لیکن اس کے مرید جس میں جنات اور انسان موجود ہیں۔ وہ صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ آپ کو برا آئیڈیا ہی دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ انہیں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سوال: کیا ہر گناہ کے پیچھے شیطان ہی ہوتا ہے یا انسان کا خود کے بھی عمل دخل ہوتا ہے؟
جواب: ضروری نہیں ہے بلکہ ہمارے جسم کے اندر بھی ایک شیطان موجود ہے۔ مثلاً سیکس کی خواہش تو نارمل طریقے سے پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں شیطان آئیڈیا ہی دے دیتا ہے کہ فلاں لڑکی کو اغوا کر لو اور اس سے سیکس کرو۔ یہ شیطان کوئی انسان بھی ہو سکتا ہے یا کوئی جن ہی جو آپ کے ذہن میں غلط آئیڈیا ہی دے دیتا ہے۔ آپ پر اللہ تعالی کا ولی بننے کے لیے امتحان صرف یہی ہے کہ اس آئیڈیا سے جان چھڑانی ہے۔ بس اتنا سا امتحان آپ اور میرے سب کے لیے ہے۔
اس کی مزید مثال دیکھیے۔ ایک شوہر نے غصے میں تین طلاق کہہ بیٹھا۔ پھر بعد میں عقل آئی تو اسے چاہیے تھا کہ وہ توبہ کرے۔ اس کی بجائے وہ اب پوچھنے کے لیے ایک گمراہ مولوی کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ نہیں، اب تمہاری طلاق ممکن نہیں۔ ہاں تمام مجھ سے حلالہ کروا لو تو پھر میں تمہاری بیوی سی شادی کر لوں گا اور ایک رات کے بعد طلاق دے دوں گا۔ پھر تم شادی کر لینا۔ اب دیکھیے کہ شوہر میں غصہ اپنے ذہن کا شیطان تھا۔ دوسرا شیطان وہ مولوی مل گیا۔
اس شوہر پر اللہ تعالی کا امتحان یہی تھا کہ غصہ آیا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ وہ بیوی سے گھر سے نکل کر الگ ہو جاتا اور ذہن کو ڈھنڈا کرنے کے لیے کوئی کیک، مٹھائی کھا لیتا یا کوئی کھیل لیتا۔ پھر جب ذہن سکون میں آتا تو غصہ نہ ہوتا تو پھر ڈھنڈے ذہن سے فیصلہ کرتا کہ بیوی سے معذرت کر لوں یا پھر طلاق دے دوں۔ پھر اسے دوسرے شیطان تک پہنچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
ایسی مزید مثالوں پر غور کر سکتے ہیں۔ اس پر اچھا ہو گا کہ آپ ایک آرٹیکل لکھ لیجیے گا جس میں آپ شیطان سے جان چھڑانے کا طریقہ سامنے آ جائے گا۔ پھر اس آرٹیکل کو مجھے بھیج دینا، پھر آپ کے نام پر میگزین میں پبلش کر دوں گا۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ دوسرے لڑکوں کو بھی سمجھ آ جائے گا اور وہ بھی شیطان سے بچنے کا طریقہ سمجھ آ جائے گا۔ اس میں اللہ تعالی آپ کو اجر دے گا اور آپ اللہ تعالی آپ سے راضی ہو گا۔
بیٹا! لکھنے کے لیے بہت آسان ہے کہ آپ کے پاس کمپیوٹر یا موبائل میں اگر فانیٹک کیبورڈ کو ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کر لیں۔ یہ فری میں مل جاتا ہے اور پھر آپ ایک دن میں ہی اردو لکھ سکتے ہیں۔ کیوںکہ اس فانیٹک کیبورڈ میں جہاں A ہے، وہاں پر “الف” آ جاتا ہے۔ اسی طرح B کی جگہ ہی “ب” آ جاتا ہے۔ اس لیے آپ آسانی سے لکھ سکتے ہیں۔ اسے آپ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
https://www.mbilalm.com/urdu-keyboard.php
آپ سے ڈسکشن میں نفس لوامہ میں سورۃ القیامہ کو نہیں لکھا تھا۔ اب یہاں پر لکھ رہا ہوں اور آپ پڑھ لیجیے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ۔
لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ. (1)
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ. (2)
أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ. (3)
بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ. (4)
بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ. (5)
يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ. (6)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے کیونکہ اس رب کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔
بالکل نہیں (کیونکہ لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں تو) میں قیامت کے دن کو ثبوت میں پیش کرتا ہوں۔ اور کیوں نہیں کہ میں (آپ کے ذہن کے اندر) ملامت کرنے والے آئیڈیاز کو ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس انسان کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟کیوں نہیں؟ ہم تو اِس کے جسم کے پارٹس (Parts of Body) کو درست کر سکتے ہیں۔بلکہ حق یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرنا چاہتا ہے۔پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟
فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ. (7) وَخَسَفَ الْقَمَرُ. (8) وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ. (9)
يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ. (10)
كَلَّا لَا وَزَرَ. (11) إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ. (12)
يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ. (13)
بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ. (14) وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ. (15)
جب آنکھیں کھلی کی کھلی ہو جائیں گی، چاند کی روشنی ختم ہو جائے گی جبکہ سورج اور چاند، دونوں اکٹھے کر دیے جائیں گے۔تو یہی انسان اُس دن کہے گا: “اب کہاں بھاگ کر جا سکوں؟”
ہرگز نہیں، اب کہیں پناہ نہیں ہو گی بلکہ اس دن آپ لوگ رب ہی کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے کیا عمل آگے پہنچایا ہے اور کیا پیچھے چھوڑ دیا ہے؟بلکہ حق یہ ہے کہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے، اگرچہ وہ کتنے ہی بہانے بنا لے۔ (سورۃ القیامۃ 75)
تفسیر
انسان کے اپنے جسم اور ذہن کو اللہ تعالی نے ثبوت کے طور پر بیان فرمایا ہے جسے ہم عربی میں “نفس لوامہ” کہتے ہیں۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا شخص ہمارے ساتھ فراڈ کرے، ہمیں تشدد کرے، ہمارے جسم پر کوئی سیکس ریپ کرے تو ہمارے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ اس شخص کا رزلٹ ہونا چاہیے اور اسے سزا ملنی چاہیے؟ آپ دہشت گرد ہمارے بچوں کو قتل کرے تو آپ کیا کہیں گے کہ بالکل ان مجرموں کو سزا دینی چاہیے اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس مجرم کو سزا ملے۔ اگر بالفرض ہم خود ہی کوئی جرم کریں تو ہمارے اندر بھی ایک ملامت آتی ہے کہ ہم نے غلط حرکت کی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب انسان پر بہت دکھ ہوتا ہے کہ مجرم کو حکومت سزا نہ دے۔
اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ اگر انسان کو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے، تو یہ کنفرم ہے کہ اللہ تعالی ہی ہر مجرم کو سزا دے گا اورلوگوں کی خدمت کرنے والے کو پرافٹ بھی دے گا۔
اب لاجیکل سوچ لیجیے کہ موجودہ زندگی میں سوائے چند مجرموں کے اکثر مجرموں کو سزا نہیں ملتی ہے جبکہ ہماری خواہش ہے کہ انہیں سزا مل جائے۔ اسی طرح جو آدمی لوگوں کی اچھی خدمت کرتا ہے، اسے کوئی پرافٹ بھی نہیں ملتا ہے؟ اس زندگی میں وہ ڈیزائن صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس کا جواب دے دیا ہے کہ یہ موجودہ زندگی آپ کے صرف امتحان کے لیے ہے کہ آپ کیسا عمل کررہے ہیں۔ اس کے بعد آپ اللہ تعالی کے حضور پہنچ جائیں گے اور رزلٹ مل جائے گا۔ اچھے عمل کا پرافٹ ملے گا اور مجرم کو سزا ملے گی۔
ہمیں لگتا ہے کہ امتحانی زندگی تو بہت لمبی ہے۔ اس وقت جب ہم لامحدود زندگی میں پہنچ جائیں گے تو اس وقت محسوس ہو گا کہ پہلی زندگی جو صرف 70-100 سال بہت چھوٹا ٹائم ہے۔
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com