اسلام میں جب بھی کسی گروہ نے اپنے تصورات و نظریات کو داخل کرنا چاہا تو اس نے سب سے پہلے عقل کی برتری اور اس کی فرمانروائی کا چرچا کیا اور کہا کہ چونکہ مروجہ نظریات و خیالات و افکار، ذہن انسانی سے مطابقت نہیں رکھتے اس لئے انہیں رد کر کے اس کی جگہ ایسے افکار و نظریات لانا ضروری ہے، جو عقل کے عین مطابق ہوں۔ عقل سے مراد وہ نظریات ہوتے ہیں جو اس دور کے غالب رجحانات کی عکاسی کریں۔
معتزلہ [قرون وسطی کا ایک گروہ جس نے اسلام کو یونانی فلسفے کے مطابق کرنے کی کوشش کی تھی] نے بھی یونانی افکار و نظریات سے ذہنی طور پر شکست کھا کر یہی کچھ کیا اور عقل کی بنا پر زور دیا کہ شریعت میں فیصلہ کن حیثیت رسول کی بجائے عقل کو حاصل ہو اور انہیں وہ سارے اعمال و تصورات شریعت سے خارج کرنے میں آسانی رہے، جو ان کے زعم کے مطابق خلاف عقل ہیں۔ چنانچہ معتزلہ نے اپنے مخصوص نظریات عدل اور توحید کی بناء پر پل صراط، میثاق اور معراج کا انکار کیا اور ان ساری احادیث کو رد کر دیا جن میں ان کا ثبوت ملتا ہے۔۔۔۔
عقل کا جائز مقام
قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات وارد ہوئی ہیں جن میں عقل انسانی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کائنات میں بکھری ہوئی لاتعداد اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرے۔ کبھی انسان کی توجہ ہواؤں کی تصریف و تصرف [یعنی گردش] کی طرف مبذول کرائی گئی ہے تو کبھی سورج، چاند اور ستاروں کی حرکات اور دن رات اور موسم کی تبدیلی کی طرف۔
کبھی نباتات کی روئیدگی اور اس کی مختلف منازل حیات کا ذکر کیا گیا ہے اور کہیں حیوانات کی تخلیق اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کی طرف، کبھی عالم آفاق میں قدرت الہی پر واضح شواہد کی طرف توجہ کی دعوت دی گئی ہے تو کبھی انسان کے اپنے اندر کی دنیا کی طرف، غرض یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قرآن کریم کا ایک معتد بہ حصہ ایسی آیات پر مشتمل ہے جن میں انسان کو اپنے اندر اور باہر کی دنیا میں سوچنے، غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ کس طرح نباتات کا پتہ پتہ، پھولوں کی پنکھڑی، شجر و حجر اور شمس وقمر شہادت دے رہے ہیں کہ وہ قدرت کے مختلف اسرار کا مجموعہ اور خالق کائنات کے علم و حکمت کے واضح شواہد ہیں۔ اس غور و فکر سے انسان کو دو طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہیں:
پہلا یہ کہ انسان ان کے خواص و تاثیرات معلوم کر کے ان سے فائدہ اٹھائے جیسا کہ اللہ تعالی نے خود ہی فرمایا:
سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تمہارے قابو میں کر دیا ہے۔ (لقمان 31:20)
یعنی کائنات کی ہر چیز کو تمہارا تابع فرمان بنا دیا گیا ہے۔ اب اسے کام میں لانا انسان کا اپنا کام ہے اور یہ فائدہ غور و فکر اور عقل کو کام میں لانے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
[دوسرا فائدہ یہ ہے کہ] جب انسان اشیائے کائنات کا تحقیق و تدقیق سے مطالعہ کرتا ہے اور ان میں غرق ہو کر ان کے پوشیدہ اسرار و رموز اور حکمتوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے تو یہ باتیں اسے خود خالق کائنات کے وجود اور اس کے محیر العقول علم و حکمت کی طرف واضح نشاندہی کرتی ہیں اور بے اختیار اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً
اے پروردگار! تو نے اس کائنات کو عبث نہیں پیدا کیا۔ (اٰل عمران 3:191)
قرآن اور بائبل کے دیس میں اس سفرنامے کے مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں گھوم پھر کر خدا کی نشانیوں میں غور و فکر کیا جائے۔ یہ نشانیاں اللہ تعالی کی تخلیق کردہ فطرت کی صورت میں ہوں یا اس کی عطا کردہ انسانی عقل نے ان نشانیوں کو تیار کیا ہو، یہ انسان کو ایک اور ایک خدا کی یاد دلاتی ہیں۔ مصنف نے بعض قوموں کے تاریخی آثار کو خدا کے وجود اور اس کے احتساب کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ تفصیل کے لئے مطالعہ کیجیے۔ |
عقل اور ہدایت
آیات الہی سے مندرجہ بالا نتائج ماخوذ کرنے کی تائید میں ہم یہاں ایک واقعہ درج کرتے ہیں جو علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کو اس دوران پیش آیا جب وہ انگلستان میں زیر تعلیم تھے، وہ کہتے کہ:
سال 1909 کا ذکر ہے۔ اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ چرچ کے مشہور ماہر فلکیات پروفیسر جیمس جینز بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے، میں نے قریب ہو کر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا، دو باتیں، پہلی یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے۔ سر جیمس جینز اس بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔ پھر میں کہا، دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لئے جا رہا ہے۔ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمس جینز لمحہ بھر کے لئے رک گئے اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا، آج شام میرے ساتھ چائے پیو۔
چنانچہ میں چار بجے شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، ٹھیک چار بجے لیڈی جیمس باہر آ کر کہنے لگیں، سر جیمس تمہارے منتظر ہیں۔ اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے، کہنے لگے، تمہارا سوال کیا تھا؟ اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر، اجرام سماوی کی تخلیق، اس کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نور پر ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی و جبروت پر دہلنے لگا۔
ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، عنایت اللہ خان! جب میں خدا کی تخلیق کے کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں: تو بہت بڑا ہے۔ تو میری ہستی کا ہر ذرہ میرا ہمنوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادات میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے، کہو عنایت اللہ خان! تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں کیوں گرجے جاتا ہوں۔
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمس کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا۔ میں نے کہا، جناب والا! میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں، اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت یاد آ گئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟ فرمایا، ضرور! چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی۔
و مِنْ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ۔ وَمِنْ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور بعض کالے سیاہ ہیں، انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ (فاطر 35:27-28)
یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمس بولے، کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں؟ حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جو مجھے پچاس برس کے مسلسل مطالعہ سے معلوم ہوئی، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ بات موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے، محمد تو ان پڑھ تھے، انہیں یہ حقیقت خود بخود نہ معلوم ہو سکتی تھی۔ یقیناً اللہ تعالی نے انہیں بتائی تھی۔ بہت خوب! بہت عجیب۔ (علم جدید کا چیلنج از وحید الدین خان)
یہ ہیں وہ نتائج جو اشیائے کائنات میں غور و خوض کرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور جن کی طرف قرآن نے ہر شخص کو دعوت دی ہے۔ اب اس کے برعکس دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
اے میرے بیٹے! اگر برے لوگ تمہیں پھسلائیں تو ان کی باتوں میں نہ آنا۔ اگر وہ کہیں، ہمارے ساتھ چلو، ہم کسی کا خون بہانے کے لئے تاک میں بیٹھتے ہیں، اور کسی بے قصور انسان کے لئے گھات لگاتے ہیں، ہم ان کا قیمتی مال چھین کر اپنے گھروں کو لوٹ کے مال سے بھر لیتے ہیں۔ جو مال ملے گا اس میں سے تمہیں بھی حصہ دیں گے۔ میرے بیٹے! تم ان کے ساتھ نہ جانا اور نہ ان کی راہ پر قدم رکھنا۔۔۔۔ یہ لوگ اپنا ہی خون بہانے کے لئے تاک میں بیٹھتے ہیں اور اپنی ہی جان کے لئے لئے گھات لگاتے ہیں۔ ناجائز آمدنی کے پیچھے جانے والوں کا انجام یہی ہوا کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے والے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام (بائبل، امثال) |
عقل اور ضلالت
سر چارلس ڈارون (1808-1882) وہ پہلا مغربی مفکر ہے جس نے انسان کی تخلیق کے مسئلہ میں نظریہ ارتقاء کو باضابطہ طور پر پیش کیا۔ وہ کہتا ہے کہ آج سے دو ارب سال پیشتر سمندر کے ساحل کے قریب پایاب پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی۔ پھر اس کائی کے کسی ذرہ میں کسی نہ کسی طرح حرکت پیدا ہوئی تھی۔ یہی اس دنیا میں زندگی کی پہلی نمود تھی۔ اسی جرثومہ حیات سے بعد میں نباتات اور اس کی مختلف شکلیں وجود میں آئیں۔ پھر حیوانات وجود میں آئے اور بالآخر بندر کی نسل سے انسان پیدا ہوا ہے۔
ڈارون کی تحقیق و تدقیق اپنے مقام پر بجا۔ یہ صحیح ہے یا غلط، یہ ہم کسی اور مقام پر زیر بحث لائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈارون پر اس تحقیق و تدقیق کا یہ اثر ہوا کہ وہ بالآخر خدا کا منکر ہو کر مرا تھا۔ ابتداءً وہ خدا پرست تھا، پھر جب اس نے یہ نظریہ مدون طور پر پیش کیا تو لاادریت کی طرف مائل ہوگیا اور بالآخر خدا کی ہستی سے یکسر انکار کر دیا۔ اسی وجہ سے اس نے یوں کہا تھا کہ اس کائی میں کسی نہ کسی طرح زندگی پیدا ہوگئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس وقت خدا کی ہستی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا۔ ان ہر دو واقعات سے ہم ان نتائج تک پہنچتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ اگر عقل وحی کے تابع ہو کر چلے تو یہ خالق کائنات پر بے پناہ ایمان ویقین کا سبب بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔ اگر عقل وحی سے بے نیاز ہو کر چلے تو بسا اوقات ضلالت و گمراہی کی انتہائی پہنائیوں میں جا گراتی ہے۔
یہیں سے عقل اور وحی کے مقامات کا تعین ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی عقل انتہائی محدود ہے اور یہ کائنات لامحدود ہے۔ لہذا اس کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کا ادراک اس عقل ناتمام کے بس کا روگ نہیں۔ عقل کی مثال آنکھ کی طرح ہے اور وحی وہ خارجی روشنی ہے جس کی موجودگی میں عقل صحیح راستہ پر چل سکتی ہے۔ وحی خالق کائنات ہی کے علم و حکمت کا دوسرا نام ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اشیائے کائنات کی حقیقت کا علم خالق کائنات سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے۔ لہذا جو عقل وحی کی روشنی سے بے نیاز ہو کر اپنا راستہ تلاش کرے گی وہ ہمیشہ تاریکیوں میں ہی بھٹکتی رہے گی اور یہی کچھ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک عقل اور اہل عقل کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا۔۔۔
(مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی، آئینہ پرویزیت سے اقتباس)
عقل کا دائرہ کار
بلاشبہ دین کے انتخاب کے بارے میں عقل کو حق دیا گیا ہے کہ وہ اس کے اصول و مبادیات کی جانچ اور تحقیق کرے پھر چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو رد کر دے کیونکہ دین کے اختیار کرنے میں کوئی مجبوری نہیں لیکن دین کو قبول کرنے کے بعد عقل کو ہرگز یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اس کے اہم اور بنیادی عقائد و نظریات جو وحی کی صورت میں اسے ملے ہیں، پر ہی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دے بلکہ اسے اب وحی کے تابع ہو کر چلنا چاہیے اور یہ اتباع اندھی عقیدت کے طور پر نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت ہونا چاہیے۔ لہذا ہمارے خیال میں عقل کے کام مندرجہ ذیل قسم کے ہونے چاہییں۔
۔۔۔۔۔۔۔ وحی کے بیان کردہ اصول و احکام کے اسرار اور حکمتوں کی توضیح و تشریح
۔۔۔۔۔۔۔ احکام کے نفاذ کے عملی طریقوں پر زمانہ کے حالات کے مطابق غور کرنا اور پیش آمدہ رکاوٹوں کو دور کرنا۔ مثلاً وحی نے اگر سود کو حرام کر دیا ہے تو عقل کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وحی کی حدود کے اندر اس کو ختم کرنے کے لئے حل پیش کرے۔ پھر اگر عقل سود یا اس کی بعض شکلوں کو حرام سمجھنے کی بجائے اس کو حلال بنانے کے حیلے سوچنے لگے تو عقل کے استعمال کا یہ رخ قطعاً صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ بات طے شہدہ ہے نص یا کتاب و سنت کے واضح احکام کی موجودگی میں اجتہاد یا بالفاظ دیگر عقل کا [غلط] استعمال قطعاً حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ دور کے نظریات کے مقابلہ میں وحی کے نظریات کی برتری ثابت کرنا اور ان کو مدلل طور پر پیش کرنا اور اگر موجودہ نظریات سے عقل خود مرعوب ہو کر وحی میں کانٹ چھانٹ اور اس کی دور از کار تاویلات کر کے اس کے واضح مفہوم کو بگاڑنے کی کوشش کرے گی تو اس کا یہ کام دین میں تحریف شمار کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔ تحریف شدہ ادیان پر اسلام کی برتری اور فوقیت کو دلائل سے ثابت کرنا اور بیرونی حملوں کا دفاع کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔ نفس و آفاق کی وہ آیات جن میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ ان میں تحقیق و تفتیش کر کے انہیں آگے بڑھانا اور ان سے مطلوبہ فوائد حاصل کرنا جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔
یہ اور اس جیسے کئی دوسرے کام ہیں جن میں عقل سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ اعلان کر دیجیے کہ:
قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ۔
کہہ دیجیے کہ میرا راستہ تو یہی ہے کہ میں اور میرے پیروکار خدا کی طرف سمجھ بوجھ کی بنیاد پر دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالی پاک ہے اور میں مشرکوں سے نہیں۔ (یوسف 12:108)
عقل کی ناجائز مداخلت
پھر وہی لوگ جو ذہنی طور پر جدید فلسفہ یا سائنسی نظریات سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ محض اس لئے کہ وحی اس کی ہمنوا نہیں ہوتی تو وہ وحی سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے متعلق فرمایا:
بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔
بلکہ جس چیز کے علم پر یہ قابو نہ پا سکے، اس کو جھٹلا دیا حالانکہ ابھی اس کی حقیقت ان پر کھلی ہی نہیں۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگ بھی جھٹلاتے رہے۔ (یونس 10:39)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کے نظریات ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ ایک دور میں ایک نظریہ قبول عام کا شرف حاصل کرتا ہے تو تھوڑی مدت کے بعد اس کی تردید شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ایک تیسرا نظریہ سامنے آتا ہے۔ اب بتائیے کہ وحی آخر کون سے نظریہ کا ساتھ دے؟ اور کیا باقی ادوار میں اس کو جھٹلا دیا جائے؟ اس بات کو ہم ایک مثال سے واضح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں یونان کے مفکر بطلیموس نے [یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج اس کے گرد گردش میں ہے۔ اہل کلیسا نے اس نظریے کو اپنے مذہب کا جزو بنا کر عقائد کا حصہ بنا دیا] مصر، یونان، ہند اور یورپ میں پندھرویں صدی عیسوی تک اسی نظریہ کی تعلیم دی جاتی رہی اور 1800 سال تک یہ نظریہ دنیا بھر میں مقبول رہا۔۔۔ بعد ازاں اٹلی کے ایک مفکر گلیلیو (1564-1642) نے زمین کو مرکز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔ چنانچہ پادریوں نے اسے مذہب کے خلاف مسائل قرار دے کر اسے مجرم گردانا اور وہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں سر آئزک نیوٹن (1643-1727) نے کوپر نیکس کے نظریہ کو درجہ تحقیقات پر پہنچایا۔۔۔۔
لہذا جدید نظریات صرف اسی صورت میں قابل قبول سمجھے جائیں گے جب کہ وہ وحی سے مطابقت رکھتے ہوں۔۔۔۔۔ بعض لوگ انہی جدید نظریات سے مرعوب ہو کر قرآن میں تاویل و تحریف یا نئی تعبیر پیش کر کے بزعم خود قرآن کو اپنے دور کی علمی سطح کے مطابق لانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ کوئی دینی خدمت نہیں ہوتی بلکہ اس سے الحاد اور ذہنی انتشار کی راہیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
(مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی، آئینہ پرویزیت سے انتخاب)
اہل ایمان تو رحم دل اور محبت کرنے والے ہوا کرتے ہیں۔ ان کی مثال ایک جسم کی سی ہے جس کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم اس کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (بخاری، کتاب الادب) |
فاضل مصنف نے وحی اور عقل کے باہمی تعلق سے متعلق جو تفصیلات پیش کی ہیں، اس میں ایک بات قابل غور ہے۔ مجرد عقل کی یہ خامی ہوتی ہے کہ یہ جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انسان شہوت سے مغلوب ہو جائے تو اس کی عقل شہوت پرستی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غصے اور انتقام کے جذبات میں جل رہا ہو تو اس کی عقل اسے انتقام کے شدید طریقے سکھاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈارون کا نظریہ جو کہ بعد کی تحقیقات میں غلط ثابت ہوا، اپنے دور میں بہت مقبول ہوا کیونکہ اہل مغرب کلیسا کے خلاف انتقام کے جذبات سے مغلوب تھے۔ گویا یہ حمایت عقل کے تحت نہیں بلکہ غصے اور انتقام کے جذبات کے تحت کی گئی۔ جب یہ نظریہ غلط ثابت ہوا تو اہل مغرب کے ہاں اس نظریے سے کوئی عوامی توبہ سامنے نہیں آئی۔ حالانکہ اگر اہل مغرب عقل کے اتنے ہی دلدادہ ہوتے تو انہیں برملا اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ہم نے ڈارون کے نظریے کے نتیجے میں خدا کا انکار کر کے ایک اجتماعی غلطی کی ہے، جس سے ہم اب توبہ کر کے خدا کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
ان میں سے بعض سائنسدانوں اور فلسفیوں جیسے انتھونی فلیو، جان میڈکس اور ایچ پی لپسن نے انفرادی طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ بہرحال کائنات کا انٹیلی جنٹ ڈیزائن یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق موجود ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری تحریر الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات میں دیکھ سکتے ہیں۔
عقل کو وحی کے تابع کر دینے سے یہ مسئلہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اب عقل، جذبات سے مغلوب نہیں بلکہ خالص عقل بن جاتی ہے۔ خالص عقل اور وحی میں کبھی بھی تعارض پیدا نہیں ہوتا۔ وحی کی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی عقل تردید کر سکے۔ اسی طرح عقل کا کوئی بھی ثابت شدہ کلیہ یا قانون ایسا نہیں ہے جو وحی کے خلاف ہو۔
اگر کسی کو بظاہر عقل اور وحی میں کہیں تضاد نظر آئے تو وہاں دو صورتیں ہوا کرتی ہیں: یا تو عقل کا پیش کردہ نظریہ قانون نہیں ہوتا بلکہ محض ایک نظریہ ہی ہوتا ہے۔ یا پھر جس چیز کو وحی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہوتا ہے وہ کوئی انسانی نظریہ ہی ہوتا ہے جسے وحی کی شکل دے دی گئی ہوتی ہے۔ مصنف کی بیان کردہ مثال میں بطلیموس کا نظریہ ایک انسانی نظریہ ہی تھا جسے ارباب کلیسا نے مذہب کا حصہ بنا کر وحی کی حیثیت سے پیش کر دیا تھا۔
(محمد مبشر نذیر)
آپ کے سوال سے کسی اور کی الجھن دور ہو سکتی ہے۔ اپنے سوالات، خیالات اور تاثرات کو ای میل کرنا نہ بھولیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ ملحدین خدا کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسا ثبوت موجود ہے جس سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق موجود نہیں ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ خدا کا انکار کیوں کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ مصنف نے انسانی عقل کا جو کردار بیان کیا ہے، اس کی روشنی میں اپنی شخصیت کا جائزہ لیجیے کہ آپ کیا کردار ادا کرنا پسند کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔ سر جیمس جینز اور چارلس ڈارون کے واقعات سے ہم کیا سبق اخذ کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ ایک خدا پرست انسان بننے میں انسانی عقل کا کردار کیا ہے؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز