توحید خالص

دو بڑی غلط فہمیاں

جب انسان شعور کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک ہی بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے، یہ کائنات کیا ہے اور اسے کس نے تخلیق کیا۔ اس سوال کا جواب اس کی پوری عمر کی راہ متعین کر دیتا ہے۔ انسانوں نے جب بھی اس سوال کے جواب میں ٹھوکر کھائی تو وہ دو غلط نتائج تک پہنچے۔

    ایک نتیجہ تو وہ تھا جس پر انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کے مغربی مفکرین پہنچے، وہ یہ تھا کہ یہ کائنات خود بخود ہی وجود پذیر ہو گئی ہے۔ اس کا کوئی خالق نہیں۔ یہ ایک نہایت ہی غیر علمی اور نامعقول نظریہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس باطل تصور کی دلیل کے طور پر ایک غلط نظریے، نظریہ ارتقاء کو پیش کیا گیا حالانکہ اگر یہ نظریہ درست بھی ہوتا تو یہ محض کائنات کے طریقہ تخلیق کی تفصیل کو بیان کرتا ہے نہ کہ اسے کسی خالق کے وجود سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اب جدید سائنس اس نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کر چکی ہے۔

علوم الحدیث – ایک مطالعہ
 یہ کتاب ڈاکٹر محمود طحان کی لکھی ہوئی ہے اور حدیث سے متعلقہ علوم کے ضمن میں عالم عرب اور برصغیر کی بہت سی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ دستیاب ہے۔ مترجم نے اس ضمن میں دو مزید ابواب کا اضافہ کیا ہے تاکہ حدیث سے متعلقہ علوم کا تفصیلی تعارف پیش کیا جا سکے۔ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

دوسرا غلط نتیجہ وہ تھا جس پر قدیم دور کا انسان پہنچا۔ یہ نظریہ شرک تھا۔ اس نظریے کے مطابق کائنات کی تخلیق تو ایک ہی خدا نے کی تھی لیکن اس نے اپنے اختیارات کو متعدد خداؤں اور دیوی دیوتاؤں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد پر توہم پرستی اور دیو مالا  کی ایک دنیا تخلیق کی جاتی۔ یہ سب بھی عقل و دانش کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض عقیدت و محبت کے جذبات کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔

    اللہ تعالی کے نبیوں نے ہر دور میں ان دونوں انتہا پسندانہ نظریوں کی بجائے انسان کو درست حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔

أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ۔ (فصلت 41:6)

بے شک تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے۔ اسی کی جانب سیدھے رخ کرو۔ اسی سے مغفرت کی درخواست کرو اور مشرکین کے لئے تو ہلاکت ہے۔

اللہ تعالی کے انبیاء و رسل کی دعوت کو قبول کرنے والے توحید خالص کو اختیار کرتے۔ ان کی عبادات اور محبت کا مرکز اپنے رب کی ذات بن جاتی۔ وہ اسی سے مدد مانگتے، اسی کے آستانے پر سر جھکاتے اور ہر مشکل میں اسی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا، توحید خالص کے ان پیروکاروں کی بعد کی نسلیں، اپنے گرد و پیش کی مشرک اقوام کی توہم پرستی سے متاثر ہو کر توحید خالص میں شرک کی آمیزش کر لیا کرتی تھیں۔ بنی اسرائیل ایک خالص موحد قوم تھی لیکن اس کی بعد کی نسلیں فلسطین و مصر کی مشرک اقوام کی بت پرستی سے متاثر ہو بیٹھیں۔

    عجیب بات یہ ہے کہ بسا اوقات ان اقوام نے خدا کے انہی برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو اس کے شریک کا درجہ عطا کر دیا۔ بنی اسرائیل کے ایک فرقے نے سیدنا عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا تو سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں نے توحید خالص کے علمبردار عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اپنی توحید میں شرک کی آمیزش کر لی۔ سیدنا اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد نے تو انتہا کر دی کہ اپنے آباء ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کے تعمیر کردہ مرکز توحید کعبۃ اللہ میں خود انہی کی تصاویر آویزاں کر دیں۔

عقل مند لوگ زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور مزید علم حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ بے وقوف لوگ زیادہ بولتے ہیں اور اس طرح اپنے لئے مصیبتوں کا باعث بن جاتے ہیں۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام

توحید خالص کا یہ عقیدہ انسان کی فطرت میں اس حد تک اترا ہوا ہے کہ اگر وہ شرک کو اختیار کرتا بھی ہے تب بھی وہ دیوتاؤں کو ایک مخروطی تنظیم ہائیرارکی کی شکل دے لیتا ہے اور ان میں سے ایک ہستی کو سب سے برتر مانتا ہے۔ اگر انسان الحاد کو اختیار کرتا ہے تب بھی وہ کسی نظریے کو خدا کے مقام پر فائز کر کے اس کی پوجا شروع کر دیتا ہے۔

    محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دنیا کو توحید خالص کے فطری تصور سے روشناس کروایا۔ آپ کی امت چودہ صدیوں سے توحید خالص پر قائم ہے۔ ایسا ضرور ہوا ہے کہ اپنے ارد گرد کی اقوام سے کچھ مشرکانہ تصورات اور رسوم و آداب مسلمانوں میں در آئے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت مسلمہ توحید پر قائم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مشرکانہ تصورات اور رسوم و آداب کی نشاندہی کر دی جائے تاکہ ان سے نجات حاصل کی جا سکے۔ ہماری رائے میں موجودہ دور میں چار ایسے معاملات ہیں جن میں مسلمانوں کے ہاں شرکیہ رسوم و آداب در آئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کی بجائے کسی اور سے عبد و معبود کا تعلق

۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کی عملی تردید

۔۔۔۔۔۔ دیومالا کی تخلیق

۔۔۔۔۔۔ مراسم عبودیت کی تخلیق

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ توحید کا عقیدہ انسانی فطرت کے اندر موجود ہے۔ اس جملے پر تبصرہ کیجیے۔

۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے ہاں کون کون سے شرکیہ تصورات، مراسم اور آداب پائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ مسلمانوں میں کہاں سے آیا ہے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

توحید خالص: حصہ دوم

اس تحریر کے پہلے حصے میں ہم نے ان چار معاملات کا ذکر کیا تھا جن میں مسلمانوں کے ہاں شرکیہ رسوم و آداب در آئے ہیں:

۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کی بجائے کسی اور سے عبد و معبود کا تعلق

۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کی عملی تردید

۔۔۔۔۔۔ دیومالا کی تخلیق

۔۔۔۔۔۔ مراسم عبودیت کی تخلیق

ان کی تفصیل یہ ہے۔

قرآن اور بائبل کے دیس میں
 انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے متعلق مقامات کا سفرنامہ۔ اس سفر نامے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے متعلق مقامات مکہ، مدینہ، طائف، بدر اور تبوک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ قوم کے ثمود کے پہاڑوں میں تراشے گئے گھر، نبطی قوم کے تاریخی آثار، قوم لوط اور قوم شعیب علیہما الصلوۃ والسلام کے علاقے، بنی اسرائیل کی تاریخ اور سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب مقامات کی تاریخ اس سفرنامے کا حصہ ہے۔ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

اللہ تعالی کی بجائے کسی اور سے عبد و معبود کا تعلق

ہمارے ہاں اللہ تعالی سے محبت، اس سے تعلق، اس کے آگے گڑگڑانا، اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہنا اور اسی سے مدد مانگنے کا سلسلہ اب اس قدر مضبوط نہیں رہا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔ بعض لوگ اللہ تعالی  کی محبت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کی بجائے ان کی توجہ کا سارا رخ کچھ اور ہستیوں کی محبت کی جانب ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اور صالحین سے محبت  یقینی طور پر ضروری ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی محبت کو سرے سے نظر انداز کر دیا جائے۔

    اللہ تعالی کے آگے رونے، گڑگڑانے اور اپنے گناہوں کی معافی چاہنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن بعض لوگ اس سلسلے کو دیگر ہستیوں کے ساتھ بھی شروع کر چکے ہیں۔ اللہ تعالی سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ہستیوں کو خدا کا برگزیدہ مان کر ان میں مافوق الفطرت قوتیں تسلیم کر لی جاتی ہیں اور پھر ان سے مدد مانگنے اور دعا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اگر یہ عمل درست ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مافوق الفطرت طریقے سے مدد مانگا کرتے لیکن حدیث میں ایسا کچھ بھی ہمیں دستیاب نہیں ہے۔

    بسا اوقات یہ تصور عام کیا جاتا ہے کہ جیسے بادشاہوں سے عرض و معروض کرنے کے لئے اس کے مصاحبین اور عہدے داروں کے ذریعے سفارش کروائی جاتی ہے، ویسے ہی اللہ تعالی کے حضور بھی ایسا ہی کرنا چاہیے اور براہ راست اللہ تعالی سے مانگنے کی بجائے اس کے نیک بندوں سے مانگنا چاہیے۔ یہ مثال بالکل ہی غلط ہے۔ بادشاہ تو محض ایک معمولی سا انسان ہی ہوتا ہے اور اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک ہی وقت بھی سینکڑوں لوگوں کی فریاد سن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں عہدے دار مقرر کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کو تو معاذ اللہ یہ کمزوری لاحق نہیں ہے۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ بیک وقت اپنی تمام مخلوق کی فریاد سن سکے۔

    اگر اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور سے یہ معاملہ کرنا دین اسلام کا حصہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خود اس کی تلقین فرمایا کرتے، لیکن ایسی ایک بھی حدیث ہمیں دستیاب نہیں ہے۔

مراسم عبودیت کی تخلیق

جس طرح کسی بھی مذہب میں اللہ تعالی یا کسی جھوٹے معبود کی عبادت کرنے کے کچھ مراسم و آداب مقرر ہیں، بالکل اسی طرح ہمارے ہاں اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ تعلق عبودیت کے رسوم و آداب کی پوری شریعت تخلیق کر دی گئی ہے۔ بزرگوں کے مزار پر جانے اور ان سے تعلق قائم کرنے کے آداب، تذکرے کی محافل کے آداب، ان کی خدمت میں نذر و نیاز اور قربانی پیش کرنے کے آداب غرض ایک پوری شریعت ہے، جو خدائی شریعت کے بالکل متوازی  تخلیق کر لی گئی ہے۔

(Mythology)دیومالا کی تخلیق

ہمارے ہاں بھی دیومالائی داستانوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جس میں اللہ تعالی کے نیک بندوں کے ساتھ عجیب و غریب اور محیر العقول واقعات منسوب کئے گئے ہیں۔ اگر اس دیومالا کا تقابلی جائزہ یونان اور ہندوستان کی دیومالائی داستانوں سے کیا جائے تو دونوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دیومالا کی تخلیق ایک ہی طرز کے انسانوں نے کی ہے۔

    اللہ تعالی کے کسی نیک بندے سے کبھی کوئی محیر العقول واقعہ سرزد ہو سکتا ہے جسے دینی لٹریچر میں کرامت کہا جاتا ہے۔ لیکن ایسا تبھی ہوتا ہے جب اللہ چاہے، بندے کے بس کی بات یہ نہیں ہوتی کہ وہ بٹن دبا کر کوئی کرامت دکھا دے لیکن ایسے واقعات تخلیق کیے جاتے ہیں جن میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ بندے اللہ تعالی کی قدرت میں شریک ہیں۔

جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اسے زیادہ دولت ملے اور اس کی عمر طویل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (بخاری)

ختم نبوت کی عملی تردید

اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے وحی اپنے مخصوص بندوں پر نازل کی ہے، جنہیں انبیاء کرام کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاص سلسلہ تھا جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر ختم ہو چکا ہے۔

    اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے ‘الہام’ کا تصور تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ وحی کا دوسرا ہی نام ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وحی وہ پیغام ہے جو اللہ تعالی اپنے نبیوں پر نازل کرتا ہے اور الہام وہ پیغام ہے جو غیر نبی نیک بندوں پر نازل کرتا ہے۔ پیروی دونوں کی کرنا لازم ہے۔

    ظاہر ہے کہ اس نظریے کو تسلیم کر لینے کے بعد ختم نبوت کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے، پھر بھی اللہ تعالی کے پیغامات تو اس کے نیک بندوں پر نازل ہو رہے ہیں اور اس نیک بندے کے پیروکار پر ان نیک بندوں کی اطاعت بھی اسی طرح واجب ہے جیسا کہ انبیاء کرام کی ہوا کرتی ہے۔ یہی وہ مرض ہے جس کی طرف قرآن مجید میں سابقہ امتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ (توبہ 9:31)

انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:

حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي حدثنا عبد السلام بن حرب عن غطيف بن أعين عن مصعب بن سعد عن عدي بن حاتم قال : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وفي عنقي صليب من ذهب فقال يا عدي اطرح عنك هذا الوثن وسمعته يقرأ في سورة براءة { اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله } قال أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه. (ترمذی؛ کتاب التفسیر؛ حدیث 3095)

سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آیا تومیرے گلے میں سونے کی ایک صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا، “اے عدی! اس بت کو اتار دو۔” میں نے آپ کو سورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا، “ان (اہل کتاب نے) اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیاء کو اس کا شریک بنا لیا تھا۔” اور فرمایا، “یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے مگر جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے حلال سمجھنے لگتے اور جب حرام قرار دیتے تو اسے حرام سمجھنے لگتے۔”

یہی وہ ذہنی غلامی تھی جس کے نتیجے میں علماء و مشائخ کو خدا کے پیغمبر کا اور پیغمبر کو خود خدا کا درجہ دے دیا گیا۔

    ہمیں چاہیے کہ ہم ان تمام شرکیہ تصورات اور افعال سے بچتے ہوئے توحید خالص کو اختیار کریں کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں نجات کا دارومدار توحید خالص پر ہے۔ یہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اور یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کرام کی۔ یہی وہ دین ہے جس پر حضور کے صحابہ اور امت کے صالحین نے عمل کیا ہے۔

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں نے بزرگان دین کو کس طرح رسول کا درجہ دے دیا ہے۔ عملی زندگی سے مثالیں پیش کیجیے۔

۔۔۔۔۔ بعض لوگ اللہ کے نیک بندوں کو خدا کا درجہ دے کر ان کے ساتھ کیا معاملات کرتے ہیں، عملی مثالوں سے واضح کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

توحید خالص
Scroll to top