سوال: کیا لونڈی سے نکاح ضروری ہے؟
جواب: الحمد للہ لونڈی اور غلامی کی لعنت پوری دنیا میں ختم ہو گئی ہے۔ عہد رسالت اور اس سے پہلے غلامی موجود تھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید اور سنت نبوی میں جو غلام رہتے تھے، انہیں اسٹیپ بائی اسٹیپ ختم کیا اور آزادی دی اور مستقبل میں غلامی کو ختم کر دیا۔ لونڈی غلام خاتون کو یہی حکم دیا گیا ہےکہ وہ شادی کر لیں۔ اب وہ آقا اسی لونڈی کو شادی کےاسٹیٹس پر لے آئیں یا پھر کسی اور سے شادی کروا دیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آقا ان لونڈیوں کو طوائف بنا دیتے تھے۔ اس لیے انہیں روکنے کا حکم دیا۔ اس کے لیے آپ میری کتاب میں باب 9 کامطالعہ کر سکتے ہیں۔
یہاں قرآن مجید کی آیات اور چند احادیث یہاں موجود ہیں، اس سے آپ اس موضوع کا باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔
وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّناً لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔
اگر تمہاری لونڈیاں پاکدامنی کی خواہشمند ہوں تو دنیا کا مال و دولت کمانے کے لئے انہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ اگر کوئی انہیں مجبور کرے گا تو اللہ تعالی اس مجبوری کے باعث انہیں بخشنے والا مہربان ہے۔ (النور24:33)
وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۔
تم میں سے جو (مرد و عورت) مجرد ہوں، ان کی شادیاں کر دیا کرو اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح بھی کر دیا کرو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے۔ (النور 24:32)
وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلاً أَنْ يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ۔
جو شخص تم میں سے اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ آزاد مسلمان خواتین سے شادی کر سکے تو تمہاری ان لڑکیوں میں سے کسی سے نکاح کر لے جو تمہاری ملکیت میں ہیں اور مومن ہیں۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کرو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں اور آزاد شہوت رانی اور چوری چھپے آشنائی سے بچ سکیں۔ (النساء 4:25)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاثة لهم أجران: رجل من أهل الكتاب، آمن بنبيه وآمن بمحمد صلى الله عليه وسلم، والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه، ورجل كانت عنده أمة يطؤها، فأدبها فأحسن أدبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها، فله أجران). (بخاری، کتاب العلم، حديث 97)
ابوبردہ کے والد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین افراد کے لئے دوگنا اجر ہے۔ (پہلا) اہل کتاب کا کوئی فرد جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور اس کے بعد محمد پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) ایسا غلام کو اللہ اور اپنے آقا دونوں کا حق ادا کرتا ہے۔ اور (تیسرا) وہ شخص جس کی کوئی لونڈی ہو جس سے وہ ازدواجی تعلقات قائم کرنا چاہے تو اسے بہترین اخلاق اور علم کی تعلیم دے، اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے۔ اس کے لئے بھی دوگنا اجر ہے۔
عَنْ قَتَادَةَ فِي رَجُل وَطِئَ مُكَاتَبَتَهُ قَالَ إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَعَلَيْهِ الْعُقْرُ وَالْحَدُّ , وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَعَلَيْهِ الْحَدُّ وَلَيْسَ عَلَيْهِ الْعُقْرُ. (مصنف ابن ابی شيبة، كتاب الحدود، حديث 28619)
قتادہ ایسے شخص کے بارے میں بیان کرتے ہیں جس نے اپنی مکاتبہ لونڈی سے ازدواجی تعلق قائم کیا تھا، وہ کہتے ہیں، اگر اس نے ایسا جبراً کیا ہے تو اسے (بدکاری کی) شرعی حد کے علاوہ سزا بھی دی جائے گی۔ اگر اس نے ایسا اس کی رضامندی سے کیا ہے تو پھر اسے صرف شرعی حد لگائی جائے گی اور اضافی سزا نہ دی جائے گی۔
عن ابن عباس أنه قال: قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: لا مساعاة في الإِسلام، من ساعى في الجاهلية فقد لحق بعصبته، ومن ادَّعى ولداً من غير رشدةٍ فلا يرث ولا يورث. (ابو داؤد، کتاب الطلاق، حديث 2264)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، اسلام میں کوئی قحبہ گری نہیں ہے۔ جس نے جاہلیت میں قحبہ گری کی ہو، اسے اپنی ماں کے رشتے داروں سے ملحق کیا جائے گا۔ جس نے کسی بچے کو غلط طور پر خود سے ملحق کیا، نہ تو وہ بچہ اس کا وارث ہو گا اور نہ ہی وہ شخص اس بچے کا وارث۔
حدثني طارق بن عبد الرحمن القرشي قال: جاء رافع بن رفاعة إلى مجلس الأنصار فقال: لقد نهانا نبي اللّه صلى اللّه عليه وسلم اليوم فذكر أشياء، ونهى عن كسب الأمة إلا ما عملت بيدها، وقال هكذا بأصابعه نحو الخبز والغزل والنفش . (ابو داؤد، کتاب الاجارة، حديث 3426)
سیدنا رافع بن رفاعۃ رضی اللہ عنہ نے انصار کی مجلس میں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمیں ان چیزوں سے منع فرمایا تھا۔ انہوں نے اس میں لونڈی کی کمائی کا ذکر بھی کیا سوائے اس کے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ جیسے روٹی پکانا، سوت کاتنا یا روئی دھنکنا۔
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن ولاخير في تجارة فيهن وثمنهن حرام في مثل هذا أنزلت هذه الآية { ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله } إلى آخر الآية قال وفي الباب عن عمر بن الخطاب قال أبو عيسى حديث أبي أمامة إنما نعرفه مثل هذا من هذا الوجه وقد تكلم بعض أهل العلم في علي بن يزيد وضعفه وهو شامي۔ قال الشيخ الألباني : حسن۔ (ترمذی، کتاب البيوع، حديث 1282)
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، رقص و موسیقی کی ماہر لونڈیوں کو نہ تو فروخت کرو اور نہ ہی خریدو۔ انہیں اس کی تعلیم مت دو۔ ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں ہے۔ ان کی قیمت حرام ہے۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو فضول باتیں خریدتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔
حدثنا قتيبة بن سعيد وأبو كامل الجحدري (واللفظ لقتيبة). قالا: حدثنا أبو عوانة عن سماك، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك (أحق ما بلغني عنك؟) قال: وما بلغك عني؟ قال (أنك وقعت بجارية آل فلان) قال: نعم. قال: فشهد أربع شهادات. ثم أمر به فرجم. (مسلم، كتاب الحدود، حديث 4427، نسائی سنن الکبری، کتاب الرجم، حديث 7134)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماعز بن مالک سے پوچھا، کیا جو خبر مجھ تک پہنچی ہے وہ سچ ہے؟ انہوں نے کہا، آپ تک کیا بات پہنچی ہے؟ آپ نے فرمایا، تم نے فلاں کی لونڈی کی آبرو ریزی کی ہے؟ انہوں نے چار مرتبہ قسم کھا کر اقرار کر لیا۔ آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔
وقال أبو الزناد، عن محمد بن حمزة بن عمرو الأسلمي، عن أبيه: أن عمر رضي الله عنه بعثه مصدقا، فوقع رجل على جارية امرأته، فأخذ حمزة من الرجل كفيلا حتى قدم على عمر، وكان عمر قد جلده مائة جلدة، فصدقهم وعذره بالجهالة. (بخاری، كتاب الکفالة، حديث 2290)
سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے تھے۔ حمزہ نے اس شخص کی دوسرے شخص سے ضمانت لی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اس شخص کو سو کوڑے کی سزا سنائی۔ اس شخص نے جو جرم کیا تھا، اسے قبول کر لیا تھا لیکن یہ بھی بتایا تھا کہ دین کا یہ حکم اس کے علم میں نہ تھا۔ اس وجہ سے حضرت عمر نے اس عذر کو قبول کر لیا تھا۔
قَال رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ((أَيُّمَا رَجلٍ وَلَدَتْ أمَتُهُ مِنُ، فَهِيَ مُعْتَقَةٌ عَنْ دُبُرٍ مِنْهُ)). (ابن ماجة، كتاب العتق، حديث 2515، مشکوۃ، کتاب العتق، حديث 3394)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ہاں بھی کسی لونڈی سے بچہ پیدا ہو جائے، تو وہ اس کے فوت ہوتے ہی آزاد ہو جائے گی۔
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : أَيُّمَا وَلِيدَةٍ وَلَدَتْ مِنْ سَيِّدِهَا، فَإِنَّهُ لاَ يَبِيعُهَا، وَلاَ يَهَبُهَا، وَلاَ يُوَرِّثُهَا, وَهُوَ يَسْتَمْتِعُ بِهَا، فَإِذَا مَاتَ فَهِيَ حُرَّةٌ. (موطا مالک، کتاب العتق، حديث 2248)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا: جس لونڈی کے بھی اپنے آقا سے بچہ پیدا ہو، تو اس کی خدمات کو نہ تو بیچا جائے گا، نہ ہی کسی کو تحفتاً منتقل کیا جائے گا، نہ ہی وراثت میں منتقل کیا جائے گا۔ وہ مالک ہی اس سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہو گی۔
اب آپ کا سوال یہ ہو گا کہ چند سیکنڈ میں غلامی کو ختم کیوں نہیں کیا؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ بہت سے بوڑھے، بیمار اور جو خوبصورت مرد و خواتین تھے، انہیں آزادی کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں آزاد کیا جاتا تو پھر وہ یا تو بھیک ہی مانگتے یا کوئی جرم کرتے۔ اس لیے قرآن مجید میں ان لوگوں کو دینے کا حکم دیا کہ وہ آزادی کو خرید کر آزاد بنیں۔ اب جن میں محنت اور ہنر تھا، وہ آزادی آقا سے خرید لیتے۔ پھر وہ غلام محنت کرتا اور کچھ ماہ میں انسٹالمنٹ میں رقم دے کر آزاد بن جاتا۔ کم رقم ہوتی تو حکومت اور امیر لوگ جلد ہی رقم ادا کر دیتے تاکہ وہ آزاد ہو جائیں۔
سوال: کنیز اور لونڈی میں کیا فرق ہے؟
جواب: کنیز اور لونڈی میں کوئی فرق نہیں تھا بلکہ دونوں ہی غلام خواتین تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے اپنی کتاب میں آزاد ملازم خاتون کو بھی کنیز کہہ دیا ہو۔
سوال: گھروں میں کام والی عورتیں بعض اوقات دو دو چار سال کا ایڈوانس لے لیتی ہیں، ایسی لڑکی کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ لڑکی آزاد خاتون ہے۔ وہ اگر ایڈوانس میں کئی سال کی رقم لے لے تو پھر معاہدے کے مطابق اسے اتنے عرصے کے لیے سروس کرنی ہے۔ اگر انہیں کوئی مجبوری ہوئی اور جاب چھوڑنی پڑی تو پھر باقی رقم واپس کر دیں۔ اس کا فیصلہ اس لڑکی پر ہے کہ وہ سال پورے تک کام کرے جس میں ملازمت کا معاہدہ ہوتا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com